راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
دہلی کی 70 رکنی اسمبلی کیلئے انتخابی مہم آج شام اختتام کو پہونچ گئی ۔ ویسے تو دہلی میں سیاسی سرگرمیاں چند ماہ قبل ہی سے شروع ہوگئی تھیں اور جب شیڈول جاری ہوا اور انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہوگیا تو انتخابی مہم میں شدت پیدا ہوگئی تھی ۔ بی جے پی کی جانب سے خاص طور پر اس بار انتخابی مہم انتہائی شدت کے ساتھ اور جارحانہ انداز میں چلائی گئی ۔ عام آدمی پارٹی اور اروند کجریوال کو گھیرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی اور وقفہ وقفہ سے کانگریس کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔ گذشتہ دو مرتبہ کے برعکس اس بار عام آدمی پارٹی کا انتخابی مہم چلانے کا انداز بھی قدرے مختلف دکھائی دیا ۔ حالانکہ اروند کجریوال نے حسب معمول عوام سے کئی وعدے کئے ۔ ضمانتوں کا اعلان کیا اور بی جے پی کو نشانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی لیکن اس بار انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ وہ گذشتہ اسمبلی انتخابات میں عوام سے کئے گئے دو تا تین وعدوں کو پورا نہیں کرسکے ۔ جہاں بی جے پی کے تیور اس مرتبہ انتہائی جارحانہ دکھائی دہے اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ پارٹی دہلی میں گذشتہ 25 سال سے اقتدار سے دوری کو اب برداشت کرنے تیار نہیںہے ۔ پارٹی چاہتی تھی کہ اس بار اسے اقتدار حاصل ہوجائے اسی لئے انتہائی جارحانہ تیور کے ساتھ مہم چلائی گئی ۔ عام آدمی پارٹی کا انداز بعض معاملات میں مدافعانہ بھی دکھائی دیا حالانکہ کجریوال نے حسب سابق اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ عام آدمی پارٹی کو اقتدار حاصل ہوگا ۔ جہاں تک بحیثیت مجموعی انتخابی مہم کا سوال ہے تو بی جے پی نے اپنے انداز میں ماحول کو بگاڑنے اور پراگندہ کرنے کی ابتداء میں کوششیں ضرور کیں لیکن اسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی ۔ بی جے پی نے کجریوا ل کو گھیرنے میں زیادہ وقت صرف کیا اور پارٹی کی جانب سے رقومات کی تقسیم کا بھی الزام لگایا گیا ہے ۔ کچھ خواتین نے بی جے پی کی جانب سے انہیں رقومات ادا کئے جانے کا انکشاف بھی کیا ہے ۔ بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کی ایک دوسرے کے خلاف الزامات اور جوابی الزامات کی حکمت عملی کے درمیان کانگریس پارٹی کا تذکرہ بہت کم دیکھنے کو ملا ہے ۔ تاہم پارٹی نے عوام سے رجوع ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔
بی جے پی انتخابی مہم کے دوران جہاں مذہبی اور دوسرے غیر متعلقہ مسائل کو موضوع بحث بنانے میں شہرت رکھتی ہے اس بار اس کیلئے صورتحال مختلف دکھائی دی ۔ بی جے پی چاہتی تھی کہ انتخابی مہم کے آخری مراحل میں آتے آتے مہا کمبھ میلے کے انعقاد کو عوام کے درمیان موثر ڈھنگ سے پیش کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرلیا جائے ۔ بی جے پی کے اس منصوبے کو گودی میڈیا کی بھی تائید و حمایت حاصل تھی ۔ گودی میڈیا کی جانب سے مہا کمبھ میلے کو بی جے پی کا کارنامہ قرار دیتے ہوئے اترپردیش اسمبلی انتخابات کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی ۔ تاہم مہا کمبھ میں ہوئی بھگدڑ اور اس میں ہلاکتوں و اموات نے بی جے پی کے اس منصوبے کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں دیا ۔ الٹا اس بار عام آدمی پارٹی نے مہا کمبھ کو مسئلہ بنایا اور بی جے پی کی ناکامیوں کو پیش کرتے ہوئے عوام میں شعور بیدار کرنے کی کوشش کی ۔ بی جے پی کی جانب سے دہلی کے مقامی مسائل پر بات کرنے کا عام آدمی پارٹی کو چیالنج کیا جاتا رہا لیکن بی جے پی کی طرح عام آدمی پارٹی نے بھی مہا کمبھ میلہ کا اپنے انداز میں استعمال کیا اور بھگدڑ کے واقعہ کو بنیاد بناتے ہوئے بی جے پی کو اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا پوری طرح سے موقع نہیں دیا ۔ بی جے پی کو اس بات کا احساس ضرور ہوا کہ اس بار مذہبی مسائل کے استحصال کا اس کا داؤ الٹا پڑگیا ہے اور یہ داؤ دہلی کے اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے کھیل دیا ہے ۔ بی جے پی اس مسئلہ پر کچھ بھی کرنے کے موقف میں نہیں رہی ۔
کجریوال اور ان کے ساتھیوں نے ووٹرس میںر قومات کی تقسیم اور ان کے نام حذف کئے جانے کے مسئلہ کو موضوع بنایا ۔ خواتین کو رقومات حاصل کرتے ہوئے دکھایا گیا اور پھر ان افراد کو بھی میڈیا میںپیش کیا گیا جنہوں نے ادعا کیا ہے کہ ان کے نام فہرست رائے دہندگان سے حذف کردئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ روہنگیاء اور دوسرے علاقوں کے عوام کو بھی موضوع بناتے ہوئے ان کی تائید حاصل کرنے کی دونوںہ ی جماعتوں نے کوشش کی اور ایک دوسرے کو نشانہ بنایا تھا ۔ ہمیشہ سے قدر ے مختلف انداز میں چلائی گئی دہلی انتخابات کی مہم آج اختتام کو پہونچ چکی ہے اور اب سارے ملک کو دہلی کے عوام کے فیصلے کا انتظار ہے ۔