دہلی ‘ بی جے پی بھی کجریوال کی راہ پر

   

ملک کی جس کسی ریاست میں یا قومی سطح پر انتخابات کا موسم آتا ہے تو سیاسی جماعتوں کی جانب یس ووٹرس اور رائے دہندوںکو رجھانے کیلئے کئی طرح کے حربے اختیار کئے جاتے ہیں۔ جھوٹے وعدے عام بات ہیں۔ رائے دہندوں کو ہتھیلی میں جنت دکھائی جاتی ہے ۔ ان سے نا قابل عمل وعدے کرتے ہوئے ان سے ووٹ حاصل کئے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اس بات کی عادی ہیں کہ جو کام دوسرے کرتے ہیںاس پر تنقید کی جاتی ہے اور جب وہی کام خود کرتی ہیں تو اس کا کوئی نہ کوئی جواز نکال لیا جاتا ہے بھلے عوام اسے قبول کریں یا نہ کریں۔ یہی حال دہلی میں بی جے پی کا دکھائی دے رہا ہے ۔ دہلی میں اسمبلی انتخابات کیلئے مہم زوروں پر چل رہی ہے ۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے رائے دہندوںک و رجھانے اور ان کی تائید حاصل کرنے کی کوششوں میں کوئی کسر باقی نہیںرکھی جا رہی ہے ۔ دہلی میں دو معیداوں سے برسر اقتدار عام آدمی پارٹی کی حکومت عوام سے کئی مفت خدمات کا وعدہ کر رہی ہے ۔ گذشتہ دو معیادوں میں بھی اس طرح کے وعدے کئے گئے تھے ۔ یہ بھی درست ہے کہ کچھ وعدوں پر عمل آوری کی گئی ہے اور کچھ وعدے پورے نہیںہوسکے ہیں۔ عوام کو فوری طورپر درکار خدمات کو مفت کردیا گیا تھا ۔ غریب خاندانوں کیلئے بجلی مفت کی گئی ۔ پینے کا پانی ایک حد تک مفت سربراہ کیا جا رہا ہے ۔ سرکاری دواخانوں میں علاج و معالجہ کی سہولت کو بہتر کیا گیا ہے ۔ وہاں بھی خدمات مفت ہیں۔ اس کے علاوہ دہلی کے سرکاری اسکولوں کی حالات کو یکسر بدل دیا گیا ہے ۔ دہلی شائد ملک میں اس انفرادیت کی حامل ہے کہ یہاں سرکاری اسکولس کے نتائج خانگی اسکولس سے زیادہ بہتر آتے ہیں۔ دہلی میںسرکاری اسکولس کی حالت خانگی اسکولس سے زیادہ بہتر بنائی گئی تھی ۔ س کے علاوہ خواتین کو بسوں میں مفت سفر کی سہولتدی گئی ہے ۔ تیرتھ یاترا کیلئے امداد کا اعلان کیا گیا تھا اور اب مندروں اور گردواروں کے ملازمین کیلئے ماہانہ وظائف کا اعلان بھی کیا گیا ہے ۔ بی جے پی ہمیشہ ان مفت خدمات کی مخالفت کرتی رہی ہے ۔ ملک کے وزیراعظم نے تو ان سہولیات کو مفت کی ریوڑی تک قرار دیدیا تھا ۔
تاہم اب جبکہ دہلی میں انتخابی مہم زور پکڑ رہی ہے اور عوام سیاسی عمل پر نظر رکھے ہوئے ہیں تو بی جے پی کیلئے بھی یہ ضروری ہوگیا کہ وہ بھی عوام کے موڈ کو دیکھتے ہوئے مفت خدمات کا اعلان کرے ۔ حالانکہ بی جے پی یہ اعلانات مشروط کر رہی ہے اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ محض عوام کو گمراہ کرنے کیلئے اعلانات ہیں تاہم یہ ضرور ہے کہ بی جے پی یاسے اعلانات کرنے پر مجبور ہوگئی ہے ۔ بی جے پی نے شائد پہلی مرتبہ اپنے انتخابی منشور کو دو حصوں میں بانٹتے ہوئے جاری کیا ۔ ایک حصہ محض خواتین کیلئے مختص کیا گیا تھا ۔ بی جے پی نے بھی کجریوال کی طرح خواتین کو کئی خدمات مفت سربراہ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ ان کیلئے وظائف کی بھی حمایت کی گئی ہے ۔ یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ اروند کجریوال کے دور حکومت میں جو اسکیمات خواتین کیلئے شروع کی گئی تھیں انہیں برقرار اور جاری رکھا جائیگا ۔ ایسے میں کجریوال کا سوال واجبی تھا کہ جب ان ہی اسکیمات سے کام چلانا ہے تو پھر عوام حکومت کی تبدیلی کے حق میں ووٹ کیوںڈالیں۔ بی جے پی نے انتخابی منشور کا دوسرا حصہ جاری کرتے ہوئے کے جی سے پی جی تک مفت تعلیم کا اعلان تو کیا ہے لیکن اس میں ایک لچک رکھی گئی ہے کہ صرف اہل امیدواروں کو یہ سہولت رہے گی ۔ ایسے میں اہلیت کا تعین کرنا کسی کیلئے بھی آسان نہیں رہے گا اور یہ سہولت تمام طلباء کیلئے نہیں ہوگی ۔ یہ بی جے پی کی سیاسی چال ہے ۔ اس کے ذریعہ دہلی کے ووٹرس کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہی الزام کجریوال کا بھی ہے ۔
بی جے پی نے منشور جاری کردیا ہے اور یہ ایک علیحدہ سوال ہے کہ وہ منشور پر کس حد تک عمل کرے گی ۔ عمل کرے گی بھی یا نہیں۔ تاہم اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام کیلئے مفت خدمات کو مفت کی ریوڑی قرار دینے والی پارٹی اور اس کے قائدین بھی اسی طرح کے وعدے کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ یہ بی جے پی اور اس کے قائدین کے دوہرے معیارات ہیں۔ وہ دوسروں پر تو تنقید کرتے ہیں اور ان کی مخالفت بھی کرتے ہیں تاہم جب بات خود پر آتی ہے تو وہ بھی عوام کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے وہی کچھ کرتے ہیں جو دوسرے کرتے ہیں۔ دہلی کے عوم کو اس طرح کے دوہرے معیارات کو قبل از وقت سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ ش