دہلی تشددپر بات کرتے ہوئے نوبل انعام یافتہ امرتیا سین نے کہاکہ ایک ہندوستانی شہری ہونے کے ناطے وہ”مدد تو نہیں کرسکتے مگر اسکے متعلق فکر مند ہیں“۔
بول پور(مغربی بنگال)۔نوبل انعام یافتہ امریتا سین نے دہلی فرقہ وارانہ فسادات پر ہفتہ کے روز اپنی تشویش کا اظہار کیااور انہوں نے ان ”رپورٹس“ کا حوالہ دیا جس میں مرنے والوں اور اذیت پہنچائے جانے والوں میں ”زیادہ تر مسلمان“ ہیں۔
انہوں نے مزیدکہاکہ وہ کوئی”نتیجہ“ اخذ کرنا نہیں چاہتے ہیں۔
پی ٹی ائی کی خبر کے مطابق سین نے بھوپال میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ”میں بہت پریشان ہوں کہ جہاں یہ ہوا ہے وہ ملک کی درالحکومت ہے اور مرکز حکمرانی کا حصہ ہے۔
اگر اقلیتوں کو اذیتیں پہنچائی گئی ہیں اور پولیس اس کو روکنے اور اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام ہوگئی ہے تو یہ بڑی ہی تشویش کی بات ہے“۔
سین جن کاشمار موجودہ حکومت کے سخت ناقدین میں ہوتا ہے نے کہاکہ تین دنوں تک درالحکومت میں تشدد کی وجہہ سے ہونے والی اموات میں انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے اس روکنے میں ناکامی کی جو خبریں موصول ہورہی ہیں اس کی جانچ ہونی چاہئے۔
سین نے حوالے سے نیوز ایجنسی نے کہاکہ ”ایسا کہاجارہا ہے جو لوگ مارے گئے ہیں جنھیں اذیت پہنچائی گئی اس میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔ہندوستان ایک سکیولر ملک ہے اور ہم ہندو اورمسلمانوں کے درمیان اس کو تقسیم نہیں کرسکتے۔
بطورہندوستانی شہری میں مدد تو نہیں کرسکتا مگر فکر مند ضرور ہوں“۔ تاہم سین نے مزیدکہاکہ وہ تمام معاملے کا جائزہ لئے بغیر کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہتے ہیں۔
پچھلی اتوار سے شروع ہوئے فرقہ وارانہ فسادات میں اب تک 42لوگ مارے گئے ہیں
۔ جس کے ساتھ ہی سیاسی طور پر ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹہرانے کا کھیل شروع ہوگیاہے اور ساتھ میں اپوزیشن بی جے پی کی مرکزی حکومت کو سست روی اختیار کرنے اور اس کے قائدین کی جانب سے بھڑکاؤ بیانات دئے جانے کی وجہہ سے فسادات کا مورد الزام ٹہرایاجارہا ہے۔
اس کے علاوہ سین نے بھڑکاؤ تقریر دینے والوں کے خلاف ایف ائی آر درج کرنے کے متعلق دہلی پولیس سے استفسار کے کچھ گھنٹوں بعد ہی دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس ایس مرلی دھر کے تبادلے کا مسئلہ بھی اٹھایاہے۔
مرلی دھر کے تبادلے کا حوالہ دیتے ہوئے سین نے کہاکہ ”میں انہیں ذاتی طور پر جانتاہوں۔ یہ سوال اٹھانافطری ہے مگر میں کوئی فیصلہ صادر نہیں کرسکتا ہو“۔
اس کے علاوہ سین نے مبینہ مخالف حکومت سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر مغربی بنگال میں ویسوا بھارتی یونیورسٹی میں زیر تعلیم بنگلہ دیشی طلبہ کو واپس لوٹانے کے فیصلے کوبھی نا منظور کیاہے۔
انہوں نے کہاکہ ”میرے پاس کوئی تفصیلی جانکاری نہیں ہے۔
نیوز پیپر کی رپورٹ کے مطابق کوئی ایسے موثر وجہہ میری نظر میں نہیں ائی ہے جس کی وجہہ سے انہیں ملک سے واپس لوٹا دیاگیاہے“۔
سین افسرا انیکا میم کے ساتھ پیش ائے واقعہ کا حوالہ دے رہے تھے جو ایک انڈر گریجویٹ طالب علم ہیں جس کو ہوم منسٹری نے ملک چھوڑ کر چلے جانے کا استفسار کیاتھا