نئی دہلی۔ مذکورہ دہلی اقلیتی کمیشن (ڈی ایم سی) نے فبروری 2020میں دہلی میں ہوئے فسادات پر جمعرات کے روز حقائق سے آگاہی رپورٹ کی اجرائی عمل میں لائی ہے۔
مارچ کے مہینے میں ڈی ایم سی نے ایک دس رکنی حقائق سے آگاہی کمیٹی کی تشکیل عمل میں لائی تھی تاکہ فبروری 23اور 27سال2020کے درمیان نارتھ ایسٹ دہلی کے مختلف مقامات پر ہوئی تشدد کی جانچ کرے۔
مذکورہ کمیٹی نے تشدد سے متاثرہ لوگوں کو جانکاری دستاویزات او رمتاثرین کے بیانات کے ساتھ آگے آنے کے لئے مدعو کیاجو نارتپ ایسٹ دہلی کے مختلف مقامات پر تشدد کا نشانہ بنائے گئے ہیں اور ذاتی طور پر نقصاندہ مذہبی مقاماات کا بھی سروے کیا ہے۔
مذکورہ کمیٹی نے بارہا دہلی پولیس سے جانکاری حاصل کرنے کی کوشش کی مگر انہیں وہاں سے کوئی ردعمل نہیں ملا۔
رپورٹ میں کئے گئے کچھ اہم انکشافات
تشدد کے لئے بار بار اکسانا
سارے دہلی اسمبلی الیکشن کے دوران ڈسمبر فبروری سے مخالف سی اے اے مظاہرین کے خلاف تشدد کے لئے اکسانے والے بی جے پی قائدین کی کئی تقریریں تھیں
۔مذکورہ رپورٹ میں ان تقریریوں کی تفصیلات بھی درج کی گئی ہے۔
نارتھ ایسٹ دہلی کے جعفر آباد سے مظاہرین کو جبری طور پر ہٹانے کے متعلق 23فبروری 2020کو موج پور میں کپل مشرا کی بھڑکاؤ تقریر کے تقریبا فوری بعد نارتھ دہلی میں کئی مقامات پر اس وقت تشدد فوری طور پر بھڑک اٹھاے تھے۔
احتجاجیوں اور عوام کو دی جانے والی یہ دھمکیاں ڈپٹی کمشنر آف پولیس وید پرکاش سوریہ کی موجودگی میں دی گئی تھیں
منظم‘ منصوبہ بند اور نشانہ بنانے والا تشدد
مصلح ہجوم نارتھ ایسٹ دہلی کے مختلف علاقوں میں پھیلا گیا اور انفرادی طورپر لوگوں کو حملہ کرنا شروع کردیا‘ لوٹ مار کی اور دوکانوں کے ساتھ گھروں کو نذر آتش کیا۔
مذکورہ ہجوم ’جئے شری رام‘ اور یہاں تک کے ’ہر ہر مودی‘ مودی جی کاٹ دوان ملوں کو“کے علاوہ ”آج ہم تمہیں آزادی دیں گے“ کے نعرے لگارہاتھا‘ وہیں انہوں نے مسلم افراد کے منتخب مکانوں‘ گھروں‘ گاڑیوں‘ مساجد اور دیگر جائیدادوں پر حملے کئے۔
گواہوں نے بتایاکہ بڑی تعداد میں باہری لوگ تھے مگر اس میں کچھ مقامی لوگ بھی شامل تھے۔ مذکورہ ہجوم کے ہاتھوں میں لاٹھیاں‘ لوہی کی سلاخیں‘ آنسو گیس شل‘ سلینڈرس اور آتشیں اسلحہ موجود تھے۔
نارتھ ایسٹ دہلی کے کئی علاقوں میں مسلمانوں کی ذاتی جائیدادوں میں لوٹ مار کی گئی گئی‘ انہیں جلایاگیااور مکمل طور پر اس کو تباہ کردیاگیا۔
اس حد تک نشانہ بناکر حملے کئے گئے کہ جہاں پر جائیدادیں ہندوؤں کی ہیں مگر کرایہ پر مسلمانوں کو دی گئی ہیں تو ایسے واقعات میں عمارتوں کوکوئی نقصان نہیں پہنچا مگر سازوسامان لوٹ لایاگیایا پھر گھر سے باہر لاکر اس کو نذر آتش کردیاگیاتھا۔
متاثرین کا کہنا تھا کہ تشدد فساد کی طرح اچانک رونما نہیں ہوا تھا۔ یہ منصوبہ بند‘ منظم اور نشانہ بناکر انجام دیاگیاتھا۔
مذہبی مقامات کو نشانہ بنایاگیا
مذکورہ رپورٹ میں 11مساجد‘ پانچ مدارس‘ ایک درگاہ اور ایک قبرستان کی تفصیلات پیش کی ہیں جس پر تشدد کے دوران حملہ اور نقصان پہنچایاگیاہے۔
خاص طور پر ہجوم نے مسلمانوں کے عبادات کے مقامات‘ کئی مساجد اور مدراس کے علاوہ مذہبی شناخت والی چیزیں جیسے قرآن کے نمونوں وک نقصان پہنچایا اور نذر آتش کیاہے۔
مسلم اکثریت والے علاقوں کی غیر مسلم مذہبی مقامات کو ہاتھ تک نہیں لگایاگیاہے۔بڑی تعداد میں مسلمانوں ان علاقوں سے بے گھر ہوگئے ہیں اور قومی لاک ڈاؤن کی وجہہ سے راحت کیمپوں سے بھی مسلمان بے دخل ہوگئے ہیں
پولیس کا رول
اس کمیٹی کی جانب سے جمع شدہ کردہ متعدد شواہد میں پولیس کی بے عملی ظاہر کرتی ہیں یہاں تک کے تشدد شروع ہونے سے قبل یاپھر اس کے بعد جب پولیس کو کئی مرتبہ فون کرنے کے باوجود وہ موقع پر نہیں پہنچی ہے
اس بات کی شہادتیں موصول ہوئی ہیں کہ کس طرح علاقے میں پولیس گشت کررہی تھی مگر جب مدد کی گوہارلگائی تو انہوں نے کاروائی کے احکامات نہیں ہیں کہہ کر انکار کردیا تھا۔
پولیس نے غیر قانونی اکٹھا لوگوں کو منتشر کرنے یاپھر تشدد برپا کرنے والے لوگوں کو گرفتار کرنے یا انہیں تحویل میں لینے کے اختیارات کا استعمال بھی نہیں کیاہے۔
اس بات کی بھی شہادتیں موصول ہوئی ہیں کہ تشدد سے متاثرہ لوگوں کی درج کردہ ایف ائی آر میں یاتو تاخیر کی گئی یا پھر ان پر کوئی کاروائی نہیں کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ سنگین نوعیت کی شکایتوں پر بھی پولیس نے ایف ائی آروں پر کوئی عمل نہیں کیاہے۔
بعض معاملات میں پولیس نے اس وقت ایف ائی آر درج نہیں کیاجب تک شکایت کردہ نے ملزمین کے نام نہیں بتائے ہیں۔
کچھ شہادتیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ مذکورہ حملوں میں پولیس بھی ملوث تھی۔یہاں تک کہ ہجوم کو منشتر کرنے کے لئے پولیس جہاں پولیس اہلکار کی جانب سے کوشش کی جارہی تھی‘ متاثرین کاکہنا ہے کہ پولیس نے اپنے ساتھیوں کو ہجوم منتشر کرنے سے روک دیا(”انہیں مت روکو“)۔
بعض پولیس کے اہلکارتشدد میں مصروف ہجوم کو تماشائیوں کی طرح دیکھ رہے تھے۔اور دوسرے مقاما ت پر انہوں نے فسادیوں کو آگے بڑھانے کاموقع دیا اور کہاکہ(”جوچاہتے ہو وہ کرو“)۔
او رچند نے یہ بھی کہاکہ جس طرح حملہ ختم ہونے کے بعد محفوظ انداز میں پولیس اور نیم فوجی عہدیداروں نے حملہ آواروں کو محفوظ طریقے سے علاقے کے باہر نکالنے میں ان کی مدد کی تھی۔
کچھ شاہدین نے واضح طور سے پولیس پر الزام لگایاکہ جس طرح وہ راست تشدد میں ملوث تھیں‘ جس میں جسمانی حملہ اور بدسلوکی گئی تھیں۔
بعض واقعات میں متاثرین کو خود گرفتارکرلیاگیاہے بالخصوص انہیں جو کسی بھی فرد کے خلاف نام کے ساتھ شکایت کرنے گئے تھے یاپھر شکایت کرنے کی کوشش کی تھی۔
مسلم شکایت کنندگان اس خوف سے پولیس اسٹیشن جاکر اپنی شکایتوں پر عمل آواری کے متعلق جانکاری حاصل نہیں کی کہ انہیں فرضی مقدمات میں پھنسایاجائے گا۔
خواتین پر اثرات
شواہد بتاتے ہیں کہ مسلم عورتوں کو ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر حملہ کیاگیا‘ ان کے حجاب او ربرقعوں کو کھینچا گیا۔
خواتین کے بیانات سے جانکاری ملتی ہے کہ مذکورہ پولیس اور پرتشدد ہجوم نے احتجاج کے مقام پر حملہ کیا‘ جہاں پر خواتین کو مرد پولیس افسران نے پیٹا اور ہجوم نے حملہ کیاتھا۔
خواتین نے بھیڑ کے ذریعہ جنسی استحصال اور تیزابی حملوں کی مثالیں بھی بیان کی ہیں۔ مذکورہ پولیس نے عورتوں کے جنسی استحصال اور ان پر حملے کے لئے ”آزادی“ کے نعروں کا استعمال کیا‘ کم از کم ایک واقعہ میں ایک پولیس افیسر نے احتجاج کررہی خواتین کے سامنے اپنی شرم گاہ کھول کر کھڑا ہوگیاتھا۔
زبانی بدسلوکی کا طریقہ کار بھی جنسی اور فرقہ واریت پر مشتمل تھا۔ یہ واضح ہوگیا ہے کہ پولیس مدد کے لئے آگے نہیں ائی اور جیسا کے کہاگیاہے کہ کئی واقعات میں خواتین کے خلاف تشدد کاسہارا لیاگیاتھا۔
معاوضہ
حقائق سے آگاہی کمیٹی نے دہلی حکومت کی ویب سائیڈ پر دستیاب 250معاوضہ کی درخواستوں پر مشتمل دستاویزات کا جائزہ لیاہے۔
اس کے علاوہ 450درخواستیں جو کمیٹی کو دی گئی ہیں اس پر بھی غور کیاجارہاہے۔جہاں پر نقصان شدہ مقامات کی تصدیق مکمل ہوگئی ہے کہ یاتو کچھ معاملات میں عبوری ادائیگی کی گئی ہے‘ وہاں بھی اس طرح کاکام نہیں کیاگیاہے۔
ایسے معاملات بھی موجود ہیں جہاں پر توثیقی عمل ابھی تک پورا نہیں کیاگیاہے۔ تشدد کے فوری بعد کئی متاثرین دہلی چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
اس کی وجہہ سے معاوضہ کی درخواستیں ہمہ وقتی طور پر داخل نہیں کی گئی ہیں اور نہ ہی ایف ائی آر وں کا اندراج عمل میں لایاگیاہے۔
کمیٹی نے اد ا کی جانے والی رقم میں فرق بھی پایاہے۔عوامی افیسر جو تشدد میں مارا گیاہے اس کو ایک کروڑ روپئے کا معاوضہ ادا کیاگیا وہیں عام شہری جنھوں نے اپنی جان گنوائی ہے انہیں 10لاکھ روپئے ادا کئے گئے ہیں۔
اس سچائی کے باوجود کے دہلی میں لاء اینڈ آرڈر مرکزی حکومت کے کنٹرول میں آتا ہے کہ مذکورہ کمیٹی کو پتہ چلاہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے متاثرین کو ایک وقت میں دئے جانے والے معاوضہ یا پھر باز آبادکاری کی مشق میں کسی طرح کی مدد فراہم کی گئی ہے
سفارشات
مذکورہ رپورٹ میں ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی نگرانی میں ایک خود مختار پانچ رکنی کمیٹی کی تشکیل کی سفارش کی گئی ہے جس پر لازمی ہوگا کہ وہ
تمام معاملات میں ایف آرائی کی درست اور بہتر انداز میں اندراج کو یقینی بنائے جہاں میں شکایتوں کو ایف ائی آر میں تبدیل نہیں کیاگیاہے‘
دوسرا یہ کہ سی آر پی سی کی دفعہ 164کے تحت تمام متاثرین کے بیانات کو قلمبند کرنا یقینی بنایاجائے
جبکہ تیسرا یہ کہ دہلی گواہوں کا تحفظ اسکیم کے تحت گواہوں اور متاثرین کے تحفظ کو یقینی بنایاجائے‘
چوتھا یہ کہ پولیس کی جانب سے حقائق کو چھوڑ کر جو چارج شیٹ متعلقہ عدالت میں داخل کی ہے اس کا جائزہ لیاجائے‘
پانچواں دہلی پولیس کی جانب سے تشدد کے واقعات کو رونما ہونے دینے کی وجہہ ڈیوٹی کی پیچیدگی اور اس سے دستبرداری کی حد کو ختم کیاجائے‘ جس میں جنسی تشدد بھی شامل ہے اس کوعدالت میں تصویریوں اور ویڈیو اور دیگر شواہد جو ممکن کی مدد سے داخل کیاجائے‘
چھٹایہ کہ تمام متاثرین کو معاوضہ کی ادائیگی کوبروقت اور منصفانہ طور پر یقینی بنایاجائے
ساتواں یہ ہے کہ دہلی حکومت کی امدادی اسکیم کا جائزہ لیں تاکہ اس بات کا اندازہ لگایاجاسکے کے آیا معاوضہ کی رقم ہر زمرے میں نقصان‘ زخمی‘ ضرب کی متناسب ہے یا نہیں ہے او راگر کوئی ہے تو نئے تشکیلات تحریری رپورٹ میں فراہم کریں۔
مذکورہ رپورٹ میں اس بات کی بھی سفارش کی گئی ہے کہ دہلی اقلیتی کمیشن کو چاہئے کمشنر کے دعوؤں کی مدد کے لئے غمزدہ افراد کی جانب سے جنھیں مدد کی ضرورت ہوسکتی ہے ان کے حوالے سے 2-3ماہرین کی ایک ٹیم کا تقرر عمل میں لائے۔
سنوائی کرنے والے عدالت کے تجربہ کار 5-10وکلا کی ایک ٹیم قائم کرکے جس کا اشتراک دہلی اسٹیٹ لیگل سرویس اتھاریٹی کے ساتھ ہونا چاہئے تاکہ متاثرین کے لئے قانونی خدمات مہیا کئے جاسکیں‘
مذکورہ ٹیم میں صنفی مساوات کا خاص خیال رکھا جائے اور متاثرہ خواتین او ربچوں کی مدد کے لئے خصوصی اقدامات اٹھائے جائیں‘
جس میں پرائیوٹ فرد یا سرکاری عہدیداروں کے خلاف جنسی استحصال کی شکایت بھی شامل رہے۔
متاثرہ خواتین کو موثر قانونی نمائندگی کے اثر کا یقین دلائیں تاکہ ان کے اپنی مرضی کاوکیل رکھنے کے حق کے مطابق جنسی تشدد کے کیس آگے لے جاسکیں جس کے ذریعہ استغاثہ کی مدد کی جاسکے۔
سینئر سیاسی لیڈران کی جانب سے کی گئی تقریروں اور نعروں جس کے نتیجے میں تشدد رونما ہوا ہے اس اس کے گٹھ جوڑ کے حوالے سے مذکورہ ہائی کورٹ کی مدد کے لئے سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج سے قانونی مشورہ لیا جائے۔
دہلی حکومت کے لئے مذکورہ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ وہ لاز.می ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے خصوصی اقداما ت اٹھائے کہ ان معاملات میں مقرر سرکاری وکیل کا کسی گروپ یا فرد کے ساتھ کوئی تعصب تو نہیں ہے۔
اس بات کو یقینی بنائے کہ مذکورہ سرکاری وکلاء شفاف او رغیر جانبداری کا مظاہرہ کریں اور انصاف کے مفاد میں کام کریں۔
اس رپورٹ کے نتائج کو مذہبی مقامات کو ہوئے نقصان کے خمیازہ کا تخمینہ کے طور پر استعمال کریں