دہلی فساد ‘ پولیس کا رول

   

دہلی کے جہانگیر پوری علاقہ میںگذشتہ مہینے ہوئے فرقہ وارانہ فساد کے تعلق سے دہلی پولیس کے رول پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ مختلف گوشوں کی جانب سے تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دہلی پولیس نے فسادیوں کی مدد کی ہے ۔ انہیں تحفظ فراہم کیا ہے اور اقلیتی طبقات کو نشانہ بناتے ہوئے کارروائیاں کی گئی ہیں۔ فساد اور گڑبڑ کے بعد میونسپل حکام نے اقلیتوں ہی کو نشانہ بنایا اور ان کے مکانات اور دوکانات کو مسما ر کردیا گیا ۔ اقلیتی نوجوانوںکو گرفتار کرتے ہوئے مقدمات درج کئے گئے اور انہیں جیلوں کو منتقل کردیا گیا ۔ فسادات کو روکنا اور ان پر قابو پانا پولیس کا ذمہ ہوتا ہے ۔ عوام کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانا اور سبھی شہریوں کی جانب سے قانون پر عمل آوری کو یقینی بنانا بھی پولیس کا فریضہ ہوتا ہے ۔ دہلی میں ہوئے فسادات میں پولیس نے قانون کی حفاظت تو نہیں کی اور نہ ہی اپنی ذمہ داری پوری کی بلکہ قانون کی دھجیاں اڑانے والوں کو تحفظ فراہم کیا ۔ ان کے ساتھ رام نومی کے جلوس میں پولیس بھی شامل تھی ۔ دہلی کی ایک عدالت نے بعض ملزمین کی درخواست ضمانت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جو ایف آئی آر پولیس نے داخل کیا ہے اس سے خود پتہ چلتا ہے کہ جہانگیر پوری پولیس اسٹیشن کے انسپکٹر ‘ دوسرے عہدیداروں اور عملہ نے غیر قانونی طور پر بلا اجازت نکالے گئے جلوس کو روکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ وہ خود جلوس کے ساتھ چلتے رہے ۔ عدالت نے کہا کہ بادی النظر میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ مقامی پولیس اس ریلی کو روکنے میں ناکام ہوئی حالانکہ خود پولیس کو پتہ تھا کہ یہ ریلی بلا اجازت نکالی جا رہی ہے ۔ اس کیلئے کوئی اجازت نہیں دی گئی تھی ۔ ایسے میں پولیس کو چاہئے تھا کہ وہ ریلی کو روکتی ۔ ریلی میں شریک افراد کو منتشر کردیتی لیکن پولیس اپنا فرض نبھانے میں پوری طرح ناکام رہی اور اس نے غیرقانونی ریلی کو آگے بڑھانے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ عدالت کا یہ تبصرہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس نے اپنا فرض ٹھیک طرح سے نہیں نبھایا ہے اور اس نے اجازت کے بغیر نکالی گئی ریلی کو روکنے کی بجائے خود اس کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی ہے ۔
دہلی میں جس طرح کے واقعات پیش آئے ہیں وہ اب عام ہوتے جا رہے ہیں ۔ عددی طاقت کے بل پر عوام کا ہجوم اکٹھا ہوکر غیر قانونی حرکتیں کرتا ہے ۔ کسی کو بھی نشانہ بناتا ہے ۔ قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں لیکن ان کے خلاف کسی طرح کی کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ۔ جن طبقات کا جانی و مالی نقصان ہوتا ہے پولیس بھی انہیں کو نشانہ بناتی ہے اور انہیں مقدمات کا شکار کرتے ہوئے جیلوں میں بند کیا جاتا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ پولیس بلا اجازت کسی کو بھی جلوس نکالنے کی اجازت نہ دے اور جو عناصر اس طرح کے جلوس نکالتے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے بھلے ہی جلوس میں کسی طرح کا تشدد نہ ہو لیکن اجازت کے بغیر جلوس نکالنے پر کارروائی ہونی چاہئے ۔ جس جلوس میں تشدد ہو وہ اگر کسی اجازت کے ساتھ بھی نکالا گیا ہو تو جلوس نکالنے والوں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے ۔ اس طرح اگر کارروائیاں کی جانے لگیں تو پھر بلا اجازت جلوس نکالنے کا سلسلہ بند ہوگا اور ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی ہوگی ۔ تاہم پولیس عہدیداروں کی جانب سے خود کو سیاسی آقاوں کو خوش کرنے میں مصروف کردینے کی وجہ سے حالات بگڑتے ہیں اور پولیس اس کیلئے جوابدہ بھی نہیں بنائی جاتی ۔ دہلی میں تو خاص طور پر ایسے واقعات ہو رہے ہیں جہاں پولیس پر الزام ہے کہ وہ سیاسی اشاروں پر کام کرتی ہے ۔ حقیقی ملزمین کو گرفتار کرنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے مخصوص طبقات اور گوشوں کو نشانہ بناتے ہوئے مقدمات درج کئے جاتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ جو پولیس عہدیدار اجازت کے بغیر جلوس نکالے جانے پر خاموشی اختیار کریں یا مقدمات درج کرنے سے گریز کریں انہیں تحقیقات کے دائرہ میں شامل کرتے ہوئے جواب طلب کیا جائے ۔ جن عہدیداروں کے دائرہ کار میں فرقہ وارانہ واقعات پیش آئیں انہیں جوابدہ بنایا جائے ۔ ان سے جواب طلب کیا جائے اور اگر ان کی جانب سے فرائض کی انجام دہی میں تغافل ثابت ہوجاتا ہے تو ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے ۔ ان کے خلاف بھی مقدمات درج کئے جائیں۔ پولیس عہدیدار بھی ملک کے قانون سے بالاتر نہیں ہیں وہ قانون کے رکھوالے ہیں اور اپنے فرائض انہیں بہرصورت انجام دینا چاہئے ۔