دہلی فساد کا ایک سال

   

ہندوستانی مسلمانوں کے لیے آیا اب صرف اپنی جانیں قربان کرنے اور خوف کے سایہ میں زندگی گذارنے کے لیے مجبور کرنے کے دن آگئے ہیں ۔ دہلی فساد کے ایک سال کے بعد بھی فساد متاثرین اس خوف سے باہر نہیں نکل سکے ہیں تو یہ ایک بہت بڑی صدمہ خیز سچائی ہے ۔ متاثرین تک حکومت وقت کا نہ پہونچنا اور امدادی کاموں کی عدم انجام دہی ، معاوضہ کی عدم ادائیگی کی شکایات کے درمیان ہولناک شکایت یہ ہے کہ اب بھی ان متاثرین کو دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔ دہلی کی اروند کجریوال ہو یا مرکز کی مودی حکومت دونوں کے تعلق سے متاثرین نے جو شکایت کی ہے اس پر انسانی دل رکھنے والا ہر شخص افسوس کرے گا ۔ دہلی فساد کا ایک اور افسوسناک واقعہ یہ ہے کہ فساد بھڑکانے کے لیے ذمہ دار بی جے پی قائدین آج بھی سینہ ٹھوک کر اپنی حرکتوں پر خوش ہیں بلکہ بی جے پی لیڈر کپل مشرا نے یہ بھی کہا کہ وہ ضرورت پڑنے پر اس طرح کا ماحول ایکبار پھر پیدا کرسکتے ہیں ۔ یہ کھلا چیلنج ہے اس ملک کے قانون اور قانون کے رکھوالوں کے لیے ایک شخص بیان بازی کررہا ہے اور اپنی اشتعال انگیزی کو درست قرار دے رہا ہے پھر بھی وہ قوم یا ملک کا غدار نہیں ہے اور نہ ہی امن کا دشمن ہے ۔ اسے پولیس نے کاندھے پہ بٹھا لیا ہے ۔ یہ ایسا کڑوا سچ ہے کہ اب ہندوستان کی سیکولر تاریخ صرف دستور کی حد تک محدود کردی گئی ہے ۔ سماجی زندگی سے سیکولرازم کا خاتمہ کرنے والے دن رات اپنی نفرت کو پھیلانے میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ سی پی ایم لیڈر برنداکرت نے دہلی میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے متاثرین کے حق میں آواز اٹھائی ۔ ان کی یہ آواز حکمرانوں تک پہونچے گی یا نہیں یہ الگ بات ہے لیکن انہوں نے دہلی فساد متاثرین کا ساتھ دیا ۔ دہلی کی اروند کجریوال حکومت نے بڑے بڑے دعوے اور وعدے کئے تھے لیکن متاثرین تک کوئی سرکاری امداد نہیں پہونچی ۔ متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے والے کئی واقعات روزانہ رونما ہورہے ہیں ۔ متاثرین کی یہ شکایت غور طلب ہے کہ دہلی پولیس انہیں دھمکیاں دے رہی ہے ۔ فروری 2020 کے فسادات میں جن لوگوں کی جان لی گئی اور جن لوگوں کے گھر ، دکانات جلائے گئے کاروبار تباہ کردیا گیا انہیں ہی مزید ڈرایا دھمکایا جارہا ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود ان کو اس خوف سے باہر نکالنے والا کوئی نہیں ہے ۔ اس کھلے آسمان کے نیچے بند ذہن کے لوگ بھی ہیں جو چپ چاپ اس طرح کی بربادی کا نظارہ کررہے ہیں ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا خون ہورہا ہے ان کا سکھ چین چھین لینے کے لیے بعض ٹولوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے تو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے خود مسلمانوں نے اور ان کے ووٹ لینے والوں نے کیا تیاری کی ہے یہ دور دور تک پتہ نہیں ۔ فساد متاثرین کی کہانی اس قدر دردناک ہے کہ ان کے اس درد کو دور کرنے ان کو دوبارہ زندگی گذارنے کے قابل بنانے کے لیے مدد کی ضرورت ہے ۔ مودی حکومت کے سی اے اے قانون کے خلاف مسلمانوں کی آواز کو دبانے کے لیے دہلی فساد کو ہوا دی گئی تھی پھر مسلمانوں کو اس سازش کے سامنے خود کو مزید تیار کرنے کے لیے اقدامات نہیں کئے گئے ۔ قانونی لڑائی ، انصاف کے حصول اور حکومت کی وعدہ خلافیوں کے بارے میں آواز اٹھانے کی کوئی پہل نہیں کی گئی ۔ سوال یہ ہے کہ آیا مسلمان اس طرح وقتاً فوقتاً ملک کے کسی نہ کسی حصہ میں ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہیں گے ۔ کیا ہندوستانی مسلمان ان کے لیے چند ٹولوں کی طرف سے کی جانے والی بربریت کا شکار ہوتے رہیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ ان کے لیے خوف کا ماحول پیدا کررہے ہیں انہیں خطرناک صورتحال کے اشارے دے رہے ہیں ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کی کوئی ہمت نہیں کی جاسکتی ۔ قوم کو اس وقت ان حالات کے اثرات کا اندازہ نہیں ہے تو یہ ایک بڑا المیہ ہے ۔ حکومتوں کو اپنے فرائص اور ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہئے ۔ ایک منتخب حکومت کو ملک کے ہر شہری کے ساتھ یکساں سلوک کرنا ہوتا ہے ۔ کجریوال حکومت نے دہلی فساد متاثرین سے جو وعدے کئے تھے اسے پورے کرنے کی ضرورت ہے ۔ مرکز کی مودی حکومت کو شہری حقوق کے تعلق سے بیرون ملک ہندوستان کی ہونے والی بدنامی کو روکنے کے لیے راج دھرم کا خیال رکھنا چاہئے ۔۔