اب موسم میں وہ بانکپن ہی نہیں
غمگساری کا شاید چلن ہی نہیں
قومی دارالحکومت دہلی میں فضائی آلودگی ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے ۔سال میں کئی بارا یسا ہوتا ہے جب دہلی میںفضائی آلودگی کی سطح تشویشناک حد تک بڑھ جاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں عوام کو مسائل اور بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ تنفس کے مسائل عام ہوجاتے ہیں اور دیگر عوارض کا بھی مسئلہ لاحق ہوجاتا ہے ۔ ہر بار یہی صورتحال درپیش ہوتی ہے ۔ عدالتوں سے بھی بارہا حکومتوں کو پھٹکار لگائی جاتی ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ حکومتیں اس معاملے میں بالکل ہی بے حس ہوگئی ہیں اور ان پر کسی کی تنقید کا سرزنش کا بھی کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے ۔ ایک حکومت دوسری پر اور دوسری تیسری پر ذمہ داری عائد کرتے ہوئے خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتی ہے اورکسی بھی حکومت کی جانب سے اس مسئلہ کے مستقل اور دیرپا حل کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی ۔ کوئی پہل نہیں کی جاتی اور نہ ہی کسی طرح کی حکمت عملی بنائی جاتی ہے ۔ حکومتوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو راحت پہونچانے کیلئے اس معاملے میں سنجیدگی سے کام کریں۔ اس مسئلہ کا کوئی مستقل حل دریافت کرنے کی کوشش کریں۔ لگاتار غور کرتے ہوئے کوئی حل دریافت کیا جائے لیکن ایسا ہو نہیں رہا ہے اور بارہا فضائی آلودگی کی شرح مضر صحت حد تک بڑھ رہی ہے ۔ حکومت کو بسا اوقات اسکولس اور دیگر عتلیمی اداروں کو بند کرنا پڑ راہ ہے ۔ گاڑیوں کے استعمال پر تحدیدات عائد کرنی پڑ رہی ہیں اور کبھی تعمیرات پر امتناع عائد کرنے جیسے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اڈھاک بنیادوں پر کئے جانے والے کام ہیں اور ان کے نتیجہ میں نہ دہلی میں فضائی آلودگی کا مسئلہ ختم ہوگا اور نہ ہی اس کے نتیجہ میں عوام کو جو مسائل پیش آ رہے ہیں ان کو دور کیا جاسکتا ہے ۔ محض چند دن کے عارضی اقدامات کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتے اور خاص طور پر دہلی میں فضائی آلودگی کا مسئلہ سنجیدہ کوششوں کا متقاضی ہے اور جب تک تمام ذمہ داران اس معاملے میں سنجیدگی سے کام نہیں کرینگے اس وقت تک اس انتہائی اہمیت کے حامل مسئلہ کا کوئی حل دریافت کرنا آسان نہیں ہوگا ۔ یہ مسئلہ ایسا ہے جس پر کسی تاخیر کے بغیر حکومتوں کو حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔
دہلی میں جب فضائی آلودگی تشویشناک حد تک بڑھ جاتی ہے تو اس وقت خیال آتا ہے کہ پڑوسی ریاستوں میں پرالی جلانے کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہو رہی ہے ۔ پنجاب پر اس معاملے میں زیادہ ذمہ داری عائد کی جاتی تھی ۔ اب پنجاب اورد ہلی دونوں ہی جگہ عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے ۔ ایسے میں عام آدمی پارٹی کو اس معاملے میں پہل کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ مرکزی حکومت سے رجوع ہوتے ہوئے اسے بھی اس جانب توجہ دلانے اور حرکت میں لانے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ ہریانہ اور اترپردیش کے کچھ علاقوں سے بھی یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے ۔ ایسے میںمرکزی حکومت کو اس معاملے میں ذمہ دارانہ اور قائدانہ رول نبھانے کی ضرورت ہوگی ۔ سیاسی اختلافات کو اس انتہائی سنگین معاملے میں رکاوٹ بننے کا موقع دئے بغیر اس مسئلہ کی یکسوئی کیلئے کام کرنا چاہئے ۔ مرکزی حکومت کو اس معاملے میں ایک کمیٹی یا ٹاسک فورس تشکیل دیتے ہوئے اس مسئلہ کا مستقل اور دیرپا حل دریافت کرنے تجاویز طلب کرنے کی ضرورت ہے ۔ سبھی گوشوں سے اس معاملے میں تعاون لیا جاسکتا ہے ۔ کارپوریٹ شعبہ سے بھی سماجی بہتری میں مدد لی جاسکتی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کی رائے بھی حاصل کرنے پہل کی جاسکتی ہے ۔ سبھی کو اس معاملے میں اپنی اپنی ذمہ داری پوری کرنے آگے آنا چاہئے اور جب تک سبھی گوشوں سے کوششیں نہیں ہونگیاس وقت تک محض وقتی اقدامات کئے جاتے رہیں گے اور عوام متاثر ہوتے رہیں گے ۔
مرکزی حکومت اس معاملے میں آگے آتے ہوئے دہلی ‘ پنجاب ‘ ہریانہ اور اترپردیش کے عہدیداروں کی ایک ٹیم بناسکتی ہے ۔ مرکزی حکومت کے متعلقہ عہدیداروں کو اس کی قیادت سونپی جاسکتی ہے اور انہیں ایک مقررہ وقت میں اس مسئلہ کا حل دریافت کرنے کی ذمہ داری سونپی جاسکتی ہے ۔ سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سبھی کو اس معاملے میں فراخدلی کے ساتھ آگے آنا چاہئے ۔ یہ مسئلہ سیاست یا حکومت کا نہیں ہے بلکہ عوام کی صحت کا ہے اور عوام کی صحت پر کسی کو بھی سیاست نہیں کرنی چاہئے ۔ جتنا جلد اس معاملے میں پہل کی جائے اتنا ہی سب کیلئے بہتر ہوگا اور عوام کو راحت دلائی جاسکتی ہے۔