ویسے تو ملک کی جس کسی ریاست میں اسمبلی انتخابات ہوتے ہیں وہاں سیاسی ماحول پہلے ہی سے گرم ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔ سیاسی اتھل پتھل شروع ہوجاتی ہے اورمختلف قائدین کی جانب سے انحراف کا سلسلہ بھی شروع ہوتا ہے ۔ ایک سے دوسری جماعت میںشمولیت ہوتی ہے ۔ کسی سے طویل سیاسی مخالفت رکھنے والے دوست ہوجاتے ہیں اوردیرینہ دوست ایک دوسرے کے مخالف ہوجاتے ہیں۔ یہ ہندوستان کی سیاست کا ایک طئے شدہ امر رہا ہے ۔ دارالحکومت دہلی میں بھی آئندہ سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس کے پیش نظر وہاں بھی سیاسی اتھل پتھل شروع ہوگئی ہے ۔ وہاں بھی انحراف کے واقعات شروع ہوگئے ہیںاور پرانے مخالفین دوست اور پرانے دوست سیاسی مخالف بننے شروع ہوگئے ہیں۔ دہلی میں جو حالات ہیں وہ دوسری ریاستوں سے مختلف کہے جاسکتے ہیں کیونکہ دہلی میں بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کی حکومتوں میں ٹکراؤ شروع ہوگیا ہے۔ یہ ٹکراؤ طویل وقت سے ہی چل رہا ہے تاہم اب اس کی نوعیت تبدیل ہوگئی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اس بار دہلی میں عام آدمی پارٹی کو اقتدار سے باہر کرنے کی پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کام کر رہی ہے ۔ دہلی حکومت کے کام کاج میںجس طرح سے لیفٹننٹ گورنر کے ذریعہ رکاوٹیںپیدا کی جا رہی تھیں اسی سلسلہ کو دراز کرتے ہوئے اب حکومت پر تنقیدوں کیلئے بھی لیفٹننٹ گورنر کا سہارا لیا جا رہا ہے ۔ لیفٹننٹ گورنر عوامی مقامات کا دورہ کرنے لگے ہیں اور دہلی حکومت کی کارکردگی پر تنقید کرنے لگے ہیں۔ اس کے علاوہ پارٹی اورقیادت سے ناراض قائدین کو رجھانے کے سلسلہ بھی شروع ہوگئے ہیں۔ کچھ قائدین جہاں بی جے پی کی صفوں میںجاکر شامل ہونے لگے ہیں تو کچھ کانگریس کا سہارا لے رہے ہیں۔ کچھ قائدین دوسری جماعتوں کو بھی تھام کر اپنا سیاسی سفر آگے بڑھانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ایسے میں دہلی میں جو اتھل پتھل ہے وہ ایک پیچیدہ اور گنجلک صورتحال پیدا کر رہی ہے ۔ یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ ابتداء سے طئے شدہ منصوبے کے مطابق ہی دہلی کا سیاسی منظرنامہ تیارکرنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔
گذشتہ دو مرتبہ کے اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے اپوزیشن کو عملا صفر ہی رکھا تھا ۔ 70 رکنی دہلی اسمبلی میں ایک بار 67 تو دوسری بار 63 نشستوںپر عام آدمی پارٹی نے کامیابی درج کروائی تھی ۔ اس طرح ایوان میںاس کے خلاف کوئی آواز مستحکم انداز میںنہیں اٹھ سکی تھی ۔ حالانکہ یکا دوکا ارکان اسمبلی نے انحراف بھی کیا تھا لیکن حکومت یا اس کے استحکام پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا ۔ اس بار عام آدمی پارٹی کیلئے صورتحال سابق کی طرح اطمینان بخش نظر نہیں آ رہی ہے ۔ خود عام آدمی پارٹی کی صفوںمیں بے چینی کی کیفیت پیدا کردی گئی ہے ۔ کچھ قائدین بالواسطہ طور پر بی جے پی کی زبان بولنے لگے ہیں اور پارٹی قیادت کو نشانہ بنا رہے ہیں تو دوسری جانب خودپارٹی قیادت پر مسلمانوں کے تعلق سے لاپرواہی والا رویہ اختیار کرنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے ۔ مسلم مسائل پر کجریوال یا ان کی پارٹی نے کوئی واضح موقف اختیار نہیںکیا تھا ۔ خود عام آدمی پارٹی میں شامل مسلم قائدین کو بھی منظم انداز میں حاشیہ پر کرنے کا بھی الزام عائد کیا جا رہا ہے ۔ اروند کجریوال کو چیف مسنٹر کی کرسی سے علیحدہ ہونا پڑا ہے ۔ ڈپٹی چیف منسٹر کے عہدہ سے منیش سیسوڈیا کو دور کرنا پڑا ہے اور آتشی کو دہلی کی چیف منسٹر شپ سونپی گئی ہے ۔ اس صورتحال میںدہلی کے رائے دہندوں میںبھی پارٹی کے تعلق سے وہ رائے دکھائی نہیںدے رہی ہے جو پہلے دکھائی دیا کرتی تھی ۔ حالانکہ ابھی انتخابات کیلئے دو ماہ کا وقت ہے لیکن صورتحال اس بار بہت مختلف دکھائی دے رہی ہے ۔
بی جے پی بھی دہلی کے تعلق سے اپنے منصوبوں پر عمل شروع کرچکی ہے ۔ کانگریس کی اپنی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ امیدواروں کے ناموں کا بھی اعلان کیا جا رہا ہے اور عوام کو رجھانے کیلئے ہر کوئی سیاسی ہتھکنڈے اور حربے اختیار کر رہا ہے ۔ کجریوال ساری صورتحال سے نمٹنے کیلئے پردہ کے پیچھے سرگرم ہوگئے ہیں۔ اس اتھل پتھل کے دوران دہلی کے رائے دہندے کیا موقف اختیار کرتے ہیں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔ تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس سیاسی اتھل پتھل کے نتیجہ میں انتہائی گنجلک اور پیچیدہ صورتحال پیدا ہورہی ہے اور جو عوام کو موڈ کو سمجھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرینگے ان کو فائدہ ہوسکتا ہے ۔