کرن تھاپر
سابق کمشنر پولیس دہلی اور سابق ڈائریکٹر جنرل ، بارڈر سکیورٹی فورس اجئے راج شرما نے ایک انٹرویو میں ایسے ریمارکس کئے ہیں جو حکومت کو دُکھ پہنچائیں گے اور دہلی پولیس کو پریشانی میں ڈالیں گے لیکن دہلی کے عوام کو بھائیں گے۔ انھوں نے کہا ہے کہ اگر وہ پولیس کمشنر ہوتے تو انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما اور کپل مشرا کو فوری گرفتار کرلئے ہوتے۔ اجئے شرما کو اندیشہ بھی ہے کہ دہلی پولیس فرقہ پرست بن رہی ہے۔ فسادات کے دوران اُن کے برتاؤ کے ویڈیوز جو سوشل میڈیا پر وائرل ہیں، واضح طور پر یہی بات ظاہر کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پولیس کمشنر امولیا پٹنائک کو سخت آزمائش کا سامنا ہوا لیکن وہ اس میں ناکام ہوگئے۔ پولیس نے دہلی فسادات سے مؤثر طور پر نہیں نمٹا۔ اجئے شرما کو اعتراف ہے کہ حالات سے غلط طور پر نمٹنے میں دہلی پولیس کی تاریخ میں ماضی بعید نہ سہی، کم از کم جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پیش آئے ڈسمبر کے واقعات تک احاطہ ضرور کیا جاسکتا ہے۔
مجھے ’دی وائر‘ کیلئے 35 منٹ کے انٹرویو میں اجئے شرما نے شروعات میں کہا کہ جسٹس کے ایم جوزف نے بالکلیہ سچ کہا جب انھوں نے 26 فبروری کو سپریم کورٹ میں ریمارک کیا، ’’پولیس میں پروفیشنلزم کا فقدان یہاں (دہلی فسادات میں) بڑا مسئلہ ہے‘‘۔ اجئے شرما نے کہا کہ پولیس نے حالات کو کشیدہ ہوکر فساد کی شکل اختیار کرنے دیا۔ اگر وہ پہلے ہی حرکت میں آگئے ہوتے تو اس (سنگین تشدد) کو ٹالا جاسکتا تھا۔ انھوں نے اپنا تاثر ظاہر کیا کہ پولیس کی پہلی غلطی شاہین باغ میں اجتماع کی اجازت دینا ہے جو بدستور جاری ہے۔ اجئے شرما کی رائے میں یہ احتجاجی اجتماع قانون کی واضح خلاف ورزی ہے۔ یہ سرکاری جگہ پر ہورہا ہے اور کسی کو بھی راستے روکنے اور زحمت پیدا کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اگر پولیس شاہین باغ احتجاجی اجتماع کے پہلے ہی روز حرکت میں آئی ہوتی، تو اُس کے بعد پیش آئے کئی واقعات کو ٹالا جاسکتا تھا۔
تاہم، اجئے شرما نے پولیس کی دوسری غلطی کی نشاندہی کرتے ہوئے بڑی بے باکی کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر وہ پولیس کمشنر ہوتے تو انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما، کپل مشرا کو فوری گرفتار کرلئے ہوتے۔ انوراگ کے معاملے میں انھیں پہلے وزارت داخلہ کو مطلع کرنا پڑتا تھا۔ پرویش کے کیس میں اسپیکر ایوان کو اطلاع دینے کی ضرورت پڑتی۔ تاہم، کپل مشرا کیلئے کسی کو بھی مطلع کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔
کپل مشرا نے جب عوام میں ٹہر کر اشتعال انگیز ریمارکس کئے، تب اُن کے بازو ڈی سی پی (نارتھ ایسٹ) وید پرکاش سوریہ کھڑے تھے مگر انھوں نے مشرا کو روکنے یا قابو میں رکھنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس بارے میں اجئے شرما نے کہا کہ وہ وید پرکاش سے فوری وضاحت طلبی کئے ہوتے اور اگر جواب اطمینان بخش نہ ہوا تو اُن کو فوری اثر کے ساتھ معطل کردیتے۔
اجئے شرما نے اتفاق کیا کہ پولیس بی جے پی سے خائف اور حکومت سے سہمی ہوئی ہے۔ فسادات سے مؤثر طور پر نمٹنے میں پولیس کی ناکامی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مضرت رساں سیاسی اثر کے تحت ہیں۔ دہلی ہائیکورٹ میں پولیس نے جسٹس مرلیدھر (تب دہلی ہائیکورٹ سے وابستہ تھے) کے سوالات پر جواب دیا کہ انھوں نے انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما اور کپل مشرا کی نفرت آمیز تقاریر کے اشتعال انگیز ویڈیوز نہیں دیکھے ہیں۔ اس پر اجئے شرما نے کہا کہ یہ واضح طور پر غلط جواب ہے۔ اگر کوئی مخصوص فرد یا کمشنر نے متعلقہ ویڈیوز کا صاف طور پر مشاہدہ نہیں کیا تھا، تب بھی بقیہ فورس نے تو دیکھا ہی ہے۔ انھوں نے اس دعوے کو قبول کرلیا کہ پولیس نے ویڈیوز نہیں دیکھے تھے؛ اس کا مطلب ہوا کہ پولیس نے دہلی ہائیکورٹ سے سچ بات نہیں کہی۔
اجئے شرما نے کہا کہ فرقہ وارانہ فساد کسی ملک کیلئے دشمن کے حملے کے بعد دوسرا بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ اگر پولیس ہفتہ (22 فبروری) کی شام یا اتوار کی صبح فوری حرکت میں آئی ہوتی جبکہ جعفرآباد کو تشدد اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا، فساد کو روکا جاسکتا تھا۔ یہ واضح طور پر لاپرواہی ہے اور اس سے غیرذمہ داری کا پتہ چلتا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایسے ویڈیوز بھی وائرل ہیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس فسادیوں کے ساتھ کھڑی ہے اور انھیں مسلمانوں کے دکانات کو نذر آتش کرتے دیکھ رہی ہے، یا پولیس خود مسلمانوں کو لاٹھیوں سے ضرب لگاتے ہوئے انھیں ’جن گن من‘ گانے پر مجبور کررہی ہے۔ پولیس کی ان حرکتوں کے تعلق سے اجئے شرما نے کہا کہ اگرچہ انھوں نے یہ ویڈیوز نہیں دیکھے، لیکن اگر وہ درست ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ دہلی پولیس فرقہ پرست بن چکی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دہلی پولیس کہیں زیادہ گہری بے چینی کا شکار ہے۔
پولیس کمشنر امولیا پٹنائک جو 29 فبروری کو سبکدوش ہوئے، اُن کے بارے میں اجئے شرما نے کہا کہ انھیں بہت سخت آزمائش کا سامنا ہوا لیکن وہ اس میں ناکام ہوئے۔ پولیس کی قیادت کے تعلق سے عمومی تناظر میں لب کشائی کرتے ہوئے اجئے شرما نے کہا کہ اُن میں اعصابی قوت، بلند حوصلہ اور اخلاقی کردار کا فقدان معلوم ہوتا ہے۔ اجئے شرما نے این ایس اے اجیت ڈوول کے اس نکتہ سے اتفاق کیا کہ ’’عوام کو یونیفارم والوں پر بھروسہ نہیں ہے… عوام دہلی پولیس کی قابلیت اور اس کے ارادوں پر شک کررہے ہیں‘‘۔ اجئے شرما نے کہا کہ حالیہ چند ماہ دہلی پولیس کیلئے بدترین ثابت ہوئے ہیں۔ انھوں نے جامعہ اور جے این یو کے واقعات سے مناسب ڈھنگ سے نہیں نمٹا۔
اجئے شرما کا کہنا ہے کہ سب سے اہم چیز پولیس کو سیاسی مداخلت سے دور کرنا ہے۔ اس کیلئے یقینی بنانا چاہئے کہ جب ڈی جی پیز منتخب کئے جائیں، تب یہ انتخاب تین یا چار ناموں کی فہرست سے ہو، اور چیف منسٹروں کو اپنے پسندیدہ عہدہ داروں کو مقرر کرنے کی اجازت نہ ہو۔ اس کے بعد ہر سینئر پولیس آفیسر کی طے شدہ میعاد ہونا چاہئے جسے مخصوص وجوہات کی بناء صرف گھٹایا جاسکتا ہے۔ اجئے شرما نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے 2006ء میں جاری کردہ ’پرکاش سنگھ رہنمایانہ خطوط‘ کو مناسب اور مؤثر طور پر لاگو کیا جاتا، تو پولیس فورس کی آزادی اور اس کی اثرپذیری کے معاملے میں کافی فرق پڑا ہوتا۔ اجئے شرما نے کہا کہ دہلی پولیس میں جو اضطراب ہے، اُس کی اصلاح خود پولیس کو کرنی ہوگی لیکن اس کیلئے سیاسی تائید و حمایت درکار ہے۔ یہ مناسب ٹریننگ اور ڈسپلن کا معاملہ ہے۔
سب سے اہم بات، پولیس کانسٹبلس جو پولیس اسٹیشنوں میں متعین ہوتے ہیں، وہی لوگ پولیس کے ساتھ عوام کے ربط کا پہلا مرحلہ بنتے ہیں۔ انھیں دوستانہ رویہ اختیار کرنے، مؤثر طور پر اور شائستگی کے ساتھ کام کرنا ضرور سکھایا جائے اور اس کی تربیت بھی دیں۔ اس موقع پر اجئے شرما نے برٹش پولیس مین کا حوالہ دیا جنھیں ’بابیز‘ کہتے ہیں، جبکہ ہندوستانی پولیس والے شبہ اور خوف پیدا کرتے ہیں۔
[email protected]
