چندی گڑھ/نئی دہلی۔ ہریانہ سے جڑی ریاست کی سرحد پر پنجاب کے کسانوں کو پانی کے فواروں کا سامنا کرنا پڑا اور وہ پولیس کی جانب سے نصب کردہ رکاوٹوں کوہٹاکر قومی راجدھانی کی طرف جمعرات کے روز کوچ کررہے تھے کیونکہ مرکز کے کسا ن قانون کے خلاف ان کا چلو دہلی مارچ تھا۔
شام تک بھارت تعداد میں ایک گروپ دہلی سے 100کیلومیٹر کے فاصلے پر پانی پت کے ٹول پلازہ پر وہ پہنچے۔ بھارتیہ کسان یونین (ہریانہ) کے لیڈر گورنام سنگھ نے کہاکہ احتجاجیو ں کا منصوبہ تھا کہ وہ یہاں پر رات گذاریں اور اگلی صبح مارچ کودوبارہ شروع کریں گے۔
دہلی کی سرحد پرٹریفک جام تھی اور ساتھ میں ہریانہ او راترپردیش سے آنے والے گاڑیوں کی چیکنگ پولیس کی جانب سے کی جارہی تھی۔
دہلی او راین سی آر کے درمیان میٹرو خدما ت کو محدود کردیاگیاتھا۔ ہریانہ پولیس سربراہ منوج یادو نے کہاکہ ا ن کی فورس نے بڑے صبر وتحمل کا مظاہر ہ کیاہے۔
کانگریس قائدین راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی‘ سی پی ائی(ایم) جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری’اور دہلی چیف منسٹر اروند کجریوال کے علاوہ دیگر قائدین ان لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے شمبھو میں ہریانہ پولیس کی کاروائی پر سخت مذمت کی ہے۔
پنجاب‘ ہریانہ چیف منسٹران
پنجاب چیف منسٹر امریندرسنگھ اور ان کے ہریانہ کے ہم منصب منوہر لال کھٹر کی ٹوئٹر پر آپس میں لفظی جھڑپ بھی ہوئی ہے۔
کانگریس کے سینئر قائد نے کھٹر سے استفسار کیاکہ کیو ں ان کی حکومت کسانوں کو روک رہی ہے اور بی جے پی قائدین نے انہیں اکسانے کے لئے روکنے کو کہا ہے۔
احتجاج کے پیش نظر ہریانہ نے اعلان کیا تھاکہ وہ پنجاب سے جڑی اپنی سرحدوں کی حصار بندی کررہی ہے تاکہ دہلی جانے کے لئے ریاست میں ان کے داخلے کو روکا جاسکے۔
دہلی پولیس نے بھی صاف کردیا کہ 26اور27نومبر کے روز درالحکومت میں احتجاج کا منصوبہ بنانے والے کسان تنظیموں کو ہم نے اجازت دینے سے انکار کردیاہے
ٹوئٹر صارفین کا ردعمل
درایں اثناء ٹوئٹر صارفین نے اس سارے معاملے پر اپنا ردعمل پیش کیاہے۔ ایک نے لکھا کہ ”کیا یہ مودی کی کسانوں پر محبت کی بوچھار ہے؟“۔
https://twitter.com/WilfredQuadros/status/1331694931782422529?s=20
ایک اور فرد نے لکھا کہ ”اگر کوئی نیا زراعی قانون ہے جس سے کسانوں کو مشکل ہورہی ہے تو اس کو نرمی کے ساتھ پیش کیاجانا چاہئے۔ میں کسانوں کے ساتھ کھڑا ہوں“
https://twitter.com/NIKHILKALRA_NK/status/1331906332408967168?s=20
Y+ security for self made rani Lakshmi bai and water cannon and tear gas for the one's feeding us.
This is new India promised by Mr.56 inch #FarmersProtest pic.twitter.com/oS0oTi91qn— Shivankar Joshi (@shivankar_11) November 26, 2020
The farmer of the country is being arrested. Which India are we in?#FarmersDilliChalo #FarmersProtest pic.twitter.com/BN6ztT9KfT
— Rajan Chaudhary (@EditorRajan) November 26, 2020
Before 2014, protesting against the govt was a democratic right. Now, it is an 'anti-national' activity.#FarmersProtest
— PuNsTeR™ (@Pun_Starr) November 26, 2020
مذکورہ کسان نئے قانون پر نظرثانی کی مانگ کررہے ہیں جس سے زراعی اشیاء کے فروخت میں رکاوٹیں پیدا ہورہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قانون سے ایم ایس پی نظام کی تباہی ہوجائے گی