جیش محمد کے نیٹ ورکس سے جڑی چار کاریں ضبط ، ڈاکٹر عمر اور مزمل کے کمرہ سے ڈائریاں برآمد
نئی دہلی، 13 نومبر، (یو این آئی) دہلی کار بم دھماکہ کی تحقیقات کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے ، حکومتی ذرائع نے اشارہ دیا ہے کہ مرکزي تحقیقاتی ایجنسیوں، سی بی آئی اور ای ڈی کو بھی مالی بے ضابطگی اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات کیلئے شامل کیا گیا ہے ۔ جمعرات کے روز، این آئی اے ، ہریانہ پولیس، دہلی پولیس، جموں وکشمیر پولیس اور یو پی اے ٹی ایس نے تلاشی لی، جس کے نتیجے میں متعدد مشتبہ ڈاکٹروں کو حراست میں لیا گیا اور لال قلعہ کے دھماکہ میں مبینہ طور پر استعمال ہونے والی چار گاڑیوں کو ضبط کیا گیا۔ تفتیش کاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈاکٹروں کا دہشت گردی کا ماڈیول 6 دسمبر کو دہشت گردانہ حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ ابتدائی طور پر کل آٹھ ڈاکٹر اس دہشت گردی کے ماڈیول کا حصہ تھے ۔ وہ دہلی۔این سی آر میں 32 مقامات پر دہشت گردانہ حملے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے ۔ تفتیش کاروں نے اب چار کاروں کو جیش محمد کے دہشت گرد ماڈیول سے جوڑا ہے ۔ فرید آباد کرائم برانچ نے ان تمام گاڑیوں کو برآمد کر لیا ہے ۔ ان گاڑیوں میں ایک سوئفٹ ڈیزائر کار بھی شامل ہے جو ڈاکٹر شاہین کے نام پر رجسٹرڈ ہے لیکن ڈاکٹر مزمل کے زیر استعمال ہے ۔ یہی پکڑی جانے والی پہلی کار تھی، اور اس سے اسلحہ برآمد ہوا تھا۔ دوسری کار i20 بتائی جاتی ہے جو مبینہ طور پر دہلی بم دھماکے میں استعمال کی گئی تھی۔ تیسری کار فرید آباد میں پائی جانے والی ایکو اسپورٹ ہے ، اور چوتھی بریزا کار ہے ۔ مرکزی ملزم ڈاکٹر مزمل، ڈاکٹر عادل، ڈاکٹر عمر اور ڈاکٹر شاہین نے مل کر تقریباً 20 لاکھ روپے کی نقد رقم جمع کرکے ڈاکٹر عمر نبی کے حوالے کیا۔ اس رقم میں سے 3 لاکھ روپے بعد میں آئی ای ڈی تیار کرنے کیلئے گروگرام اور نوح علاقوں سے 20 کوئنٹل این پی کے کھاد خریدنے کیلئے استعمال کیے گئے ۔ حملے کی منصوبہ بندی کیلئے ڈاکٹر عمر نے انکرپٹڈ میسجنگ ایپ سگنل پر خفیہ گروپ بنایا، جس میں دو سے چار اراکین شامل تھے ۔ ڈاکٹر عادل، جس کی گرفتاری سے ایجنسیوں کو فرید آباد دہشت گرد ماڈیول کا پردہ فاش کرنے میں مدد ملی، وہ حال ہی میں قومی دارالحکومت پہنچا تھا۔ تحقیقات میں اس بات کی تصدیق ہوئی کہ وہ 11 اکتوبر کو سرینگر سے دہلی پہنچا تھا۔ ڈاکٹر شاہین سے پوچھ گچھ کے دوران ڈاکٹر فاروق کا نام سامنے آیا۔ ڈاکٹر شاہین کو لکھنؤ میں حراست میں لے لیا گیا۔ ایک ٹیم ہاپوڑ بھیجی گئی اور ڈاکٹر فاروق کو جی ایس میڈیکل کالج سے حراست میں لے لیا گیا۔ ڈاکٹر فاروق نے الفلاح یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ پہلے دن ایجنسیوں نے الفلاح یونیورسٹی میں ڈاکٹر عمر نبی اور ڈاکٹر مزمل کے کمروں سے برآمد ہونے والی ڈائریوں کا جائزہ لیا۔ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈائریوں میں لفظ ’’آپریشن‘‘کے کوڈ الفاظ تھے ۔ یہ ڈائریاں منگل اور چہارشنبہ کو الفلاح یونیورسٹی کیمپس کے اندر سے برآمد ہوئیں۔ ایک ڈائری ڈاکٹر عمر کے کمرہ نمبر 4 سے اور دوسری ڈاکٹر مزمل کے کمرے نمبر 13 سے ملی تھی۔کمرہ نمبر 13 وہ کمرہ تھا جہاں وہ اکٹھے ہو کر دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے تھے ۔ دوسری ڈائری مزمل کے کمرے سے برآمد ہوئی۔
اہلکار نے مزید کہا کہ برآمد شدہ ڈائریوں اور نوٹ بک میں کوڈ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، جن میں 8 نومبر سے 12 نومبر کے درمیان کی تاریخوں کا ذکر ہے ۔ ڈائریوں میں ‘آپریشن’ کا لفظ کئی بار آتا ہے ۔دریں اثناء، لال قلعہ دھماکہ کی جگہ سے 500 میٹر کے فاصلے پر واقع بازار کے گیٹ کی چھت پر ایک کٹا ہوا ہاتھ ملا۔ لاش ملنے کے بعد پولس نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ جمعرات کی صبح دھماکے سے متاثرہ ایک زخمی دم توڑ گیا۔ مقتول کی شناخت بلال کے نام سے ہوئی ہے ۔ دہلی پولس حکام نے بتایا کہ انہیں اسپتال سے ان کی موت کی اطلاع ملی ہے ۔