دہلی پولیس نے بھیم آرمی کے سربراہ چندرشیکھر آزاد کو شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف دہلی کی جامعہ مسجد سے دہلی کے قلب میں واقع جنتر منتر تک مارچ کی اجاز ت دینے سے انکارکردیاتھا
نئی دہلی۔جمعہ کے روز پرانے دہلی کی جامعہ مسجد سے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف نکالے گئے عظیم الشان جلوس کے بعد بھیم آرمی کے سربراہ چندرشیکھر آزاد چکما دے کر پولیس تحویل سے فرار ہوگئے۔
جامعہ مسجد کی سیڑھیوں سے جلوس نکالے جانے کے دوران انہوں نے اپنے سینکڑوں حامیوں کے ساتھ ملکر نعرے لگائے اور پرچم بھی لہرائے تھے جس کے بعد انہیں پولیس نے اپنی تحویل میں بھی لے لیاتھا۔
آزاد کوجلوس میں شریک ہونے سے روکنے کے لئے پولیس نے تمام تر بندوست کرلئے تھے مگر وہ جمعہ کی نماز کے بعد جامعہ مسجد دہلی کی سیڑھوں پر اچانک رونما ہوئے‘ اور ان کے ہاتھوں میں ہندوستانی ائین کی ایک کاپی اور بابا صاحب امبیڈکر کی ایک تصوئیر بھی تھی۔
Delhi right now ♥️ pic.twitter.com/QHngAc1oEs
— Rana Ayyub (@RanaAyyub) December 20, 2019
جس کے فوری بعد انہیں تحویل میں لے لیاگیاتھا۔دہلی پولیس نے بھیم آرمی کے سربراہ چندرشیکھر آزاد کو شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف دہلی کی جامعہ مسجد سے دہلی کے قلب میں واقع جنتر منتر تک مارچ کی اجاز ت دینے سے انکارکردیاتھا۔
सरफरोशी की तमन्ना अब हमारे दिल में है देखना है जोर कितना बाजुएं कातिल में है। जय संविधान
— Chandra Shekhar Aazad (@BhimArmyChief) December 20, 2019
مگر انہوں نے ٹوئٹ کرکے کہاکہ وہ کسی بھی صورت میں وہاں پر رہیں اور انہوں نے ایسا کیا۔
मैं यहाँ जामा मस्जिद की सीढ़ियों पर मोदी सरकार को यह बताने के लिए बैठा हूँ कि मोदी जी हम आपको संविधान की हत्या नही करने देंगे। यह देश हमारा है और इसको बचाने की लड़ाई हम आखिरी दम तक लड़ेंगे।
— Chandra Shekhar Aazad (@BhimArmyChief) December 20, 2019
آزادنے ٹوئٹ کیاکہ”میری گرفتاری کی افواہوں کو نظر انداز کریں۔
میں جامعہ مسجد کے پاس پہنچ گیاہوں“۔جیسے ہی نیلے رنگ کے رومال لپیٹے آزاد جامعہ مسجد کی سیڑھوں پر نمودار ہوئے اسی کے ساتھ ”جئے بھیم“ کے نعرے لگانا شروع ہوگئے تھے۔
بھاری تعداد میں پولیس کی جمعیت مظاہرین کو پیچھے دھکیلنے کے لئے مسجد کے گیٹس کے مدمقابل کھڑی ہوئی تھی‘ اورہجوم پر کڑی نظر رکھی جارہی تھی‘ حالات کی نگرانی ڈرون کیمروں سے بھی کی جارہی تھی۔
مذکورہ 31سالہ آزاد نے ائین کے اقتباس کا مطالعہ کیا‘ اور ساتھ میں وہاں پر موجود ہجوم نعرے لگارہا تھا۔مظاہرین مسجد کی عمارت سے باہر نکلے اور سڑک کی طرف کوچ کرنے لگے‘ وہ نعرے لگارہے تھے اور ان کے ہاتھوں پر سیاہ پٹیاں باندھی ہوئی تھیں۔
Holding up the Indian Constitution, @BhimArmyChief amid a sea of protesters demanding Azaadi from #CAA at Jama Masjid today. And hundreds of policemen trying to stop him. Watch. pic.twitter.com/d7o9YESFbo
— Asmita Nandy (@NandyAsmita) December 20, 2019
جامعہ مسجد علاقے کی تنگ گلیوں میں ہجوم ہاتھوں میں پرچم او رپلے کارڈس تھامے آگے بڑھ رہا تھا۔کسی بھی امکانی واقعہ کے نمٹنے کی پولیس تیاری میں تھی مگر وہ ناامید دیکھائی دے رہی تھی۔
#WATCH Delhi: Protest at Jama Masjid against #CitizenshipAmendmentAct Bhim Army Chief Chandrashekhar Azad also present. Azad had been earlier denied permission for a protest march from Jama Masjid to Jantar Mantar pic.twitter.com/uXK1tvO4CT
— ANI (@ANI) December 20, 2019
پولیس عہدیداروں کومذہبی قائدین سے حالات کو قابومیں کرنے کی کوشش میں بات کرتے ہوئے دیکھا بھی گیا۔ آخر جب ان کے ہاتھ آزاد کے کالر تک پہنچ گئی تب بھیم آرمی کے سربراہ کو پولیس نے حراست میں لے لیاتھا۔
لیکن اب پولیس آزاد کو اپنی گاڑی میں لے جانے کی کوشش میں مصرو ف تھی اس وقت وہ چکما دے کرفرار ہونے اور ہجوم میں غائب ہونے میں کامیاب رہے۔
ایک روز قبل ہی جامعہ مسجد سے ایک کیلو میٹر کے فاصلے پر واقعہ لال قلعہ کے پاس سے شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے سینکڑوں مظاہرین کوپولیس نے حراست میں لیاتھا۔ جمعرات کے روز لال قلعہ علاقے میں دفعہ 144کا نافذ اور ہجوم کے اکٹھا ہونے پرامتناع عائد کردیاگیاتھا۔
مذکورہ شہریت ترمیمی ایکٹ کا مقصد بنگلہ دیش‘ افغانستان اور پاکستان کے اقلیتی طبقات جو ظلم وزیادتی کاشکار ہوکر ہندوستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں انہیں اس ملک کی شہریت دینا ہے۔
اپوزیشن جماعتیں‘ جہدکار‘ مشہور و ممتاز شخصیتیں‘ اور طلبہ اس احتجاج کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ یہ مسلمانوں کے ساتھ امتیاز ی سلوک کرنے والا قانون ہے اور ائینی اصولوں‘ سکیولرزم او رمساوات کی خلاف ورزی ہے