کتابیں کا ڈھیر‘ سی اے اے احتجاج کے مقام پر مطالعہ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ
نئی دہلی۔ تقریروں‘ نعروں‘ دائیں بازو اور پولیس کے حملوں کے خوف اور یہاں تک کہ فائرینگ کا واقعہ پیش آنے کے بعد بھی مذکورہ فاطمہ شیخ ساوتری بائی پھولے لائبریری شاہین باغ میں مطالعہ کے لئے آنے والے نئے لوگوں کواپنی طرف راغب کررہی ہے۔
سال1848میں لڑکیوں کے پونے میں پہلا ہندوستان اسکول شیخ اور پھولے نے شروع کیاتھا۔طویل مدت سے شہریت قانون کے خلاف جاری احتجاج جس کی قیادت خواتین کررہی ہیں کہ وہاں مذکورہ لائبریری کی شروعات17جنوری کے روز ہوئی تھی۔
حیدرآباد یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر روہت ویمولہ کی خودکشی کو چار سال اسی روز مکمل ہوئی تھے‘ اکھل بھارتی ویارتی پردیش کے کارکنوں کے ساتھ تصادم کے بعد روہت ویمولہ کو یونیورسٹی سے برطرف کردیاگیاتھا۔
محمد آصف جو اندرا گاندھی قومی اوپن اسکول میں فارسی کے ایک طالب علم ہیں‘ جو یہ لائبریری چلارہے ہیں نے کہاکہ یہ خود ا یک طرح کا احتجاج ہے۔انہوں نے کہاکہ ”یہاں پر کوئی رجسٹریشن فیس نہیں لی جارہی ہے۔
سب کے لئے تعلیم ہے‘خانگی اداروں میں جو پیسے ادا نہیں کرتے انہیں تعلیم دینے سے انکار کردیاجاتا ہے۔ یونیورسٹیو ں کونشانہ بنایاجارہا ہے کیونکہ وہاں پر تعلیم دی جارہی ہے جس کی وجہہ سے نوجوان مضبوط اور تنصیبات سے سوال پوچھنے کے اہل ہورہے ہیں“۔
انہوں نے مزیدکہاکہ”شاہین باغ ائین کو توڑنے والے نظریہ کے خلاف ایک جدوجہد کا نام ہے۔زیادہ تر مطالعہ کرنے والے ائین کی انگریزی‘ ہندی اور اُردو کی کاپیاں مانگ رہے ہیں‘ صحافی روایش کمار کی بولنا ہی ہے اور فیض احمد فیض کی نظموں کی کافی مانگ ہے۔
نوجوان بھگت سنگھ کے کاموں کی تفصیلات مانگ رہے ہیں او رمعمر لوگ گاندھی کی کتابیں اور نہرو کی ڈسکوری آف انڈیا کی مانگ کررہے ہیں“۔آصف نے پچاس کتابوں سے اس کی شروعات کی تھی اور اب یہ اشتراک کے ساتھ 10تہہ تک پہنچ گیا ہے۔
صرف خواتین ہی کتابیں خرید سکتی ہیں اور مردوں کو قریب میں بس شلٹر جو سڑک بند ہونے کی وجہہ سے اب استعمال میں نہیں ہے اس میں بنی عارضی لائبریری میں بیٹھ کر مطالعہ کرنے کی اجازت ہے۔
یہاں پر بنگالی اور پنجابی میں بھی چند کتابیں موجود ہیں۔ جنوبی دہلی کے ہاوز رانی میں بھی مخالف سی اے اے احتجاج کے نام پر اسی طرح کی ایک چھوٹی لائبریری شروع کی ہے۔
راجدھانی میں کم سے کم 15مخالف سی اے اے احتجاج چل رہے ہیں جس کی قیادت خواتین کی جانب سے کی جارہی ہے‘ جس میں سب سے بڑا شاہین باغ میں احتجاج کیاجارہا ہے۔
نارتھ ایسٹ دہلی میں احتجاج کے مقام پر لائبریریوں کے لئے درالحکومت دہلی میں چار یونیورسٹیوں کے طلبہ کتابیں اکٹھا کرنے کے کام پر مامور ہیں۔
امبیڈکر یونیورسٹی میں شعبہ تعلیم سے ایم اے کی تعلیم حاصل کررہے کہ امرتیا جیوتی باسوجنھوں نے مصطفےٰ آباد کے احتجاجی دھرنے میں لائبریری کی شروعات کی ہے‘ نے انڈین ایکسپریس سے کہا ہے کہ ان کی ترجیحات بچوں کی کتابیں ہیں۔
باسو نے کہاکہ ”احتجاج کے مقامات تبدیلی کا مقام بن گئے ہیں جہاں پر خواتین اور بچے کو بہت ہی کم اپنے گھروں سے نکلتے تھے نعرے لگارہے ہیں۔
جس سماجی ماحول پر کارضرب میں ہم رہ رہے ہیں وہاں پریہ ایک نمایاں تبدیلی ہے۔ہم کتابوں سے اور ہمارے اطراف واکناف میں جو چیزیں ہیں اس سے سکھیں گے اور ہم چاہتے کہ یہاں پر آرہے بچوں کے لئے کچھ کام کریں۔
لہذا ہم کتابیں اکٹھا کررہے ہیں اور احتجاج کے دواو رمقامات پر لائبریریاں قائم کی جارہی ہیں“۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے باہر کی لائبریری جس کا عنوان”ریڈ فار ریولیوشن“ رکھا گیا ہے 24ڈسمبر سے کام کررہی ہے۔
اس کے بانیان میں سے ایک ساحل احمد جو ’پیس اینڈ کانفلکٹ‘ میں ایم پی کی تعلیم حاصل کررہے ہیں کا کہنا ہے کہ ڈسمبر15کے روز یونیورسٹی کی لائبریری میں پولیس کی مارپیٹ پر ردعمل کے طور سے اس لائبریری کی شروعات عمل میں لائی گئی ہے۔
جس میں کتابوں کا عطیہ دینے والو ں میں سے ایک مصنفہ اروندتی رائے بھی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ”ہر فسطائی حکمران کی شروعات لائبریوں کی بربادی سے ہوئی ہے کیونکہ وہ معاشرے اور مطالعہ کرنے والوں کو ایک نظریہ دینا چاہتے ہیں کہ حاکم بدل گئے ہیں۔
ہم نے حکومت کی جانب سے فروغ دی جارہی عدم مساوات کو ختم کرنے کے لئے احتجاج کے مقام پر مذکورہ لائبریری کی شروعات عمل میں لائی ہے۔ سرمائی تعطیلات سے قبل ہم بے شمار بچوں کو اس سے مستفید کرنا چاہیں گے“۔