دہلی کے ایگزٹ پولس

   

خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حُسن کرشمہ ساز کرے
دہلی کے ایگزٹ پولس
دارالحکومت دہلی میں اسمبلی انتخابات کیلئے رائے دہی ہوچکی ہے ۔ سارے ملک کو اب منگل 11 فبروری کو باضابطہ نتائج کا انتظار ہے تاہم جو ایگزٹ پولس سامنے آئے ہیں ان میں ایک بار پھر ترقیاتی سرگرمیوں پر مبنی سیاست کی جیت ہوتی نظر آرہی ہے ۔ اروند کجریوال کی قیادت میں عام آدمی پارٹی ہیٹ ٹرک کرتی ہوئی تیسری بار حکومت بنانے والی ہے ۔ یہ ایگزٹ پولس اگر درست ثابت ہوتے ہیں تو یہ سارے ملک کیلئے ایک مثال ہوسکتے ہیں۔ کجریوال اور ان کی پارٹی نے ترقیاتی ایجنڈہ پر انتخابات کا سامنا کیا تھا ۔ انہوں نے انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی تمام تر کوششوں کو ایک طر ح سے ناکام بنادیا اور خود بھی ایسی سازشوں کا شکار نہیں ہوئے ۔ انہوں نے عام آدمی کی سوچ کے مطابق کام کیا اور بی جے پی کے علاوہ اس کے زر خرید مفاد پرست میڈیا اور ٹی وی اینکروں کی تمام تر کاوشوں کو ناکام بناتے ہوئے دہلی کے عوام کو بھی ان کے بنیادی مسائل کو نظر میں رکھتے ہوئے ووٹ دینے کی کامیابی کے ساتھ ترغیب دی ہے ۔ دہلی میں جس طرح سے انتخابی مہم چلائی گئی اس نے سارے ملک کو ایک طرح سے بے چین کردیا تھا ۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بی جے پی اور اس کے قد آور قائدین بھی گلی کوچے کی زبان بولنے لگیں گے اور عوام کو مذہبی خطوط پر بانٹنے اور انہیں ہاتھ میںہتھیار اٹھانے کیلئے ورغلانے کی کوشش کرینگے لیکن بی جے پی اور اس کے لگ بھگ تمام بڑے قائدین ‘ مرکزی وزراء اور ارکان پارلیمنٹ نے ایسا ہی کیا ہے ۔ دہلی کے عوام کو سلام ہے جنہوں نے ان ساری کوششوں کو خود پر حاوی ہونے نہیں دیا اور نہ وہ ایسے غلط اور گمراہ کن پروپگنڈہ کا شکار ہوئے ۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات ہے کہ کسی ایک لیڈر نے کوئی متنازعہ ریمارک کیا یا ناشائستہ زبان استعمال کی تو بی جے پی کے دوسرے قائدین نے اس کی سرزنش کرنے کی بجائے اس کی مدافعت کو ترجیح دی تھی ۔ جس طرح ناتھو رام گوڈسے کی جانب سے گاندھی جی کے قتل کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اسی طرح بی جے پی قائدین نے نازیبا ریمارکس کی مدافعت کی کوشش کی تھی ۔
دہلی کے عوام نے تاہم اپنے ووٹ کے ذریعہ ایک ایک متنازعہ نعرے کا جواب دیا ہے ۔ انہوں نے شاہین باغ کے نام پر ووٹ نہیں دیا ‘ دہلی کے ووٹرس نے پاکستان کے نام پر ووٹ نہیں دیا ‘ ان رائے دہندوں نے ہندو ۔ مسلم کے نام پر ووٹ نہیں دیا ‘ ان رائے دہندوں نے گولی مارنے کے نعروں کو قبول نہیں کیا اور نہ ہی پھوٹ ڈالنے کی کوششوں کو قبول کیا ۔ دہلی کے ووٹرس نے بہتر اسکولوں کے ووٹ دیا ہے ‘ دہلی کے عوام نے بہتر دواخانوں کو قبولیت کی سند بخشی ہے ۔ ان ووٹرس نے بہتر نیت کو قبول کیا ہے ۔ اروند کجریوال کی حکومت نے گذشتہ پانچ سال میں جو کام کئے ہیں ان کی سارے ہندوستان میں مثال ملنی مشکل ہے ۔ یہ ضرور ہے کہ کچھ کاموں میں اس حکومت سے چوک ہوئی ہے تاہم جتنے کام سر انجام دئے گئے ان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ کچھ کوتاہیاں ہوسکتا ہے کہ ہوئی ہونگی لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کجریوال کی حکومت نے ترقی کے ایجنڈہ پر کام کیا ہے ۔ جو کوتاہیاں سابقہ معیاد میں ہوئی ہیں ان کو آئندہ معیاد میں دور کیا جاسکتا ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس حکومت کی نیت کام کرنے کی ہے ۔ اس حکومت کی نیت رشوت کو ختم کرنے کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کو کئی مفت خدمات فراہم کرنے کے باوجود حکومت کا بجٹ نقصان میں نہیں ہے بلکہ دوگنا ہوگیا ہے اور دہلی نے گذشتہ پانچ سال میں کوئی قرض بھی حاصل نہیں کیا ہے ۔ یہ ترقی کیلئے اچھی نیت کا ثبوت ہے اور اچھے کاموں کو عوام نے قبول بھی کیا ہے ۔
ایگزٹ پولس اگر درست ثابت ہوجاتے ہیں تو یہ سارے ملک کیلئے ایک پیام ہے ۔ جو حکومتیں عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرینگی انہیں وقت کی حکومت اور سارا گودی میڈیا مل کر بھی شکست نہیں دے سکتے ۔ آج میڈیا میں سوال کیا جا رہا ہے کہ عوام کو محض 200 یونٹ بجلی مفت کیوں دی جا رہی ہے ۔ میڈیا نے امبانی اور اڈانی کو دی جانے والی رعایات پر کبھی سوال نہیں کیا ۔ میڈیا نے کبھی نیرو مودی کے فرار پر کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا ۔ اس سے میڈیا کی بھی زر خرید ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے ۔ جو امکانی نتائج سامنے آ رہے ہیں ان میں نہ صرف ملک کی دوسری سیاسی جماعتوں کیلئے بلکہ خود آج کے زر خرید میڈیا کیلئے بھی ایک پیام ہے کہ سب کو ملک اور ملک کے عوام کی بہتری کیلئے مثبت سوچ کے ساتھ کام کرنا چاہئے ۔