دہلی کے وائسرائے واپس جاؤ

   

پی چدمبرم

امریکہ کے سابق صدر ابراہم لنکن نے ایک مرتبہ جمہوریت کی تعریف و تشریح کرتے ہوئے کہا تھا جمہوریت دراصل ایک ایسی طرز حکومت ہے جسے بلاشبہ عوام کی حکومت، عوام کے ذریعہ حکومت اور عوام کے لئے حکومت کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے جمہوریت کی جو تشریح کی تھی آج بھی اسے جمہوریت کی انتہائی آسان اور انتہائی جامع تعریف کہا جاتا ہے۔ اس طرز حکومت میں جو مرکزی مقام ہوتا ہے وہ دراصل عوام ہیں یعنی جمہوریت کا مرکز و مبداء عوام ہوتی ہے۔ نمائندہ جمہوریت صرف یہ قائل کرواتی ہے کہ اس میں تعداد بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔ جہاں تک ہمارے ملک ہندوستان کا سوال ہے ہندوستان ایک وفاقی ریاست ہے، دہلی ہمارے ملک کا قومی دارالحکومت ہے اور یہ بھی حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ حکومت دہلی ریاستی حکومتوں سے مختلف ہے، اس کے باوجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو بھی حکومت ہو اس کا جمہوری حکومت ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ جمہوری حکومت میں عوام ہی حکومت کا مرکز ہوتے ہیں۔ ریاست (دہلی این سٹی) بمقابلہ یونین آف انڈیا : (2018) 8 ایس سی سی 501 : میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ، دستور ہند کی قطعی تشریح کرنے والا اور ثالث ہے۔ جہاں تک آئینی طاقت کے استعمال کا سوال ہے قومی دارالحکومت کے National Capital Territory of Delhi کے حدود میں رہنے والے شہریوں کو جمہوری، معاشرتی، سماجی اور سیاسی اختیارات کا حامل بنانا ہے۔ این سی ٹی کو ایک خصوصی موقف عطا کیا گیا ہے۔ عدالت نے اس ضمن میں جگن موہن ریڈی جے کے حوالہ سے یہ بات کہی۔ جگن موہن ریڈی جے نے کیشوا نندا بھارتی میں یہ واضح طور پر کہا کہ حکومت کی جمہوری شکل دراصل دستورکے بنیادی ڈھانچہ کا ایک حصہ ہے۔

آئینی اختیار
پارلیمنٹ کے آئینی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے بالآخر حکومت دہلی کے اختیارات اور افعال کا تعین کردیا گیا ہے۔ جہاں تک دہلی کا سوال ہے دہلی کے معاملہ میں سال 1991 کے دوران دستور ہند میں ترمیم کی گئی اور اس میں آرٹیکل 239 AA شامل کیا گیا ہے تاکہ دہلی کو خصوصی کے لئے خصوصی دفعات فراہم کی جاسکیں۔ اس سلسلہ میں جو بیانات اور وجوہات بیان کی گئیں ان میں واضح طور پر کہا گیا کہ دہلی مسلسل ایک مرکزی زیر انتظام علاقہ رہے گی اور اس کے لئے اسے ایک قانون ساز اسمبلی اور اس کے ذمہ دار وزراء کی کونسل فراہم کی گئی تاکہ یہ لوگ عام آدمی سے تعلق رکھنے والے معاملات سے نمٹ سکیں۔ اس کے لئے انہیں مناسب اختیارات دیئے گئے۔ آرٹیکل 239 AA میں وہ تمام الفاظ اور جملے استعمال کئے گئے جن کے معنی و مطالب کی ہر جمہوری ملک میں ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں علاقائی حلقوں سے راست انتخاب جیسا جملہ بھی شامل ہے اور جس میں یہ بھی کہا گیا کہ قانون ساز اسمبلی کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ قوانین بنائے جن کا انہیں اختیار دیا گیا یعنی ریاست کی فہرست یا بیک وقت تیار کردہ فہرست میں کسی بھی تفصیل وار بیان شمار یا گنتی کے معاملہ میں قانون ساز اسمبلی کو قوانین بنانے کا آئینی اختیار رہے گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہاں وزراء کی کونسل ہوگی اور اس کونسل کا سربراہ چیف منسٹر ہوگا جو قانون ساز اسمبلی اور ریاستی حکومت کی کارکردگی وا افعال کی انجام دہی کے لئے لیفٹننٹ گورنر کی نہ صرف مدد کرے گا بلکہ اسے مشورہ بھی دے گا۔ گورنمنٹ آف دی نیشنل ٹیریٹری ایکٹ 1991 دراصل آرٹیکل 239AA کے تحت بنایا گیا تاکہ آرٹیکل میں جو دفعات ہیں انہیں نئی طاقت عطا کی جائے۔

با اختیار بے اختیار
گزشتہ 20 برسوں میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جہاں لیفٹننٹ گورنر نے مجلس وزراء پر برتری قائم کرنے کی کوشش کی لیکن اس طرح کی کوششوں کو سختی کے ساتھ دبا دیا گیا تاہم 2014 کے بعد بے شمار تبدیلیاں آئیں۔ دہلی میں بی جے پی کی مرکزی حکومت دارالحکومت دہلی میں غیر بی جے پی حکومت کو برداشت نہ کرسکی۔ خاص طور پر وزیر اعظم ایک ایسے چیف منسٹر کو برداشت نہیں کرسکے جو دہلی میں سیاسی مقام و مرتبہ میں حصہ چاہتا ہے۔ ایسے میں ایک طویل عرصہ سے دفن تنازعہ کو پھر دوبارہ اٹھایا گیا اور یہ سوال گونجنے لگا کہ دہلی حکومت میں حقیقی طور پر کون بڑی طاقت ہے۔ اس کوشش کو سپریم کورٹ نے ناکام بنا دیا اور عدالت اعظمیٰ نے ریاست (این سی پی دہلی) بمقابلہ یونین آف انڈیا مقدمہ میں 4 جولائی 2018 کو یہ اعلان کیا کہ آرٹیکل 239 AA(4) میں اعانت اور مشورے کے جو معنی دیئے گئے اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ این سی ٹی دہلی کے لیفٹننٹ گورنر دراصل وزراء کی کونسل کی اعانت اور مشورے کے پابند ہیں۔
اس بل کے ذریعہ قانون میں جو ترمیم کی گئی، اس سے یہی مطلب نکلتا ہے کہ لیفٹننٹ گورنر کو جیسا کہ میں نے سطور بالا میں کہا ہے کہ زیادہ اختیارات دے دیئے گئے ہیں اور جنہیں یعنی حکومت کو زیادہ اختیارات دیئے جانے چاہئے تھے ان کے اختیارات گھٹا دیئے گئے ہیں۔ اس بل کے ذریعہ اس بات کا بھی تعین کردیا گیا ہے کہ کسی بھی عاملانہ کارروائی ، اقدامات یا فیصلوں سے قبل لیفٹننٹ گورنر کی رائے لینا چاہئے۔ بہ الفاظ دیگر قانون میں ترمیم کرتے ہوئے مودی حکومت نے لیفٹننٹ گورنر کی شکل میں دہلی میں اپنے وائسرائے کو بٹھایا ہے۔ جبکہ چیف منسٹر اروند کجریوال اور ان کے وزراء کو ان کے ماتحت کردیا گیا یا پھر ان کا جلودار بنادیا گیا۔ جو ان کے پیچھے پیچھے چلیں۔

مسٹر کجریوال کو شاید اسی دن یہ معلوم ہوجانا چاہئے تھا جب جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی موقف ختم کرتے ہوئے اسے دو مرکزی زیرانتظام علاقوں میں بانٹ دیا گیا۔ وہ ایک طرح سے دستوری بغاوت تھی، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مسٹر کجریوال نے قوم پرستی کے نام پر جمہوریت کو جس طرح نشانہ بنایا گیا اور حملہ کیا گیا، اس کی بھرپور تائید کی تھی۔ آج کجریوال اور تمام جمہوریت پسندوں کیلئے المناک دن ہے۔ ایسا دن جس میں قانون میں وہ ترمیم کی گئی جو جمہوریت کی توہین ہے۔ اگر کجریوال اس معاملے میں مودی حکومت کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں یا کھڑا ہونا پسند کرتے ہیں، تو میری ساری ہمدردی ان کے ساتھ ہے ۔ جہاں تک ہندوستان میں جمہوریت کا سوال ہے دن بہ دن اس میں کمی آتی جارہی ہے اور دنیا نے بھی اس کا نوٹ لیا ہے اور کہا ہے کہ فی الوقت ہندوستان جزوی طور پر آزاد ہے۔ اگر ہم بی جے پی کے اغراض و مقاصد کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا مقصد ملک میں صرف اور صرف ایک پارٹی کی حکمرانی قائم کرنا ہے۔ ساتھ ہی پارلیمنٹ میں ارکان کی تعداد کو بڑھانا ، پارلیمنٹ کو ایک ربر اسٹامپ کی طرح بنانا، عدلیہ کو اپنے تابع کرنا اور سرکاری طور پر اسپانسرکردہ میڈیا کو فروغ دینا، ہر حکم پر میرے آقا کہنے والے کارپوریٹ یا صنعتی گھرانوں کو آگے بڑھانا اور خوشامد پسند لوگوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے جو صرف اپنی مادی ترقی پر خوش ہوتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہندوستان اور چین میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ واضح رہے کہ 1935ء میں بھی ایسی ہی صورتحال پیدا ہوئی تھی جب گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ لایا گیا تھا، اور اس وقت ہندوستانیوں نے سائمن واپس جاؤ کا نعرہ لگایا تھا۔