دہلی ہائی کورٹ نے ”اچھی تعلیمی یافتہ اورکمائی کرنے والی“ بیوی کے گذارے کے اخراجات سے کیاانکار

,

   

عدالت کا کہنا یہ ہے کہ شریک حیات کی دیکھ بھال کے قانون کا مقصد ایس افراد کا ایک گروپ بنانا نہیں ہے جو اپنے اجنبی شراکت داروں کی مالی مدد پر انحصار کریں۔
نئی دہلی۔ فیملی عدالت کے حکم کو برقرار رکھتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے ایک مردکو اپنی بیوی کی کفالت اداکرنے سے یہ نوٹ کرتے ہوئے منع کردیا ہے کہ شریک حیات کے لئے کفالت کا انتظام کے قانون کا مقصد ایسے افراد کا گروپ بنانا نہیں ہے جو اجنی شراکت دار کی مالی مدد پر انحصار کرتے ہیں۔

فیملی کورٹ نے `55000روپئے کی قانونی چارہ جوئی کے علاوہ ماہانہ 35,000روپئے کی عبوری دیکھ بھال کی درخواست میں خاتون کی اپیل مسترد کردی تھی۔

جسٹس سریش کمار کیت اور نینا کرشنا کی ڈویثرن بنچ نے نوٹ کیا کہ خاتون نے اپنی شادی کے وقت ایم فل کی ڈگری حاصل کی تھی اور ا س کے بعد کمپیوٹرس میں پیشہ وارانہ قابلیت کے بعد پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔

عدالت نے ہائی کورٹ کے ایک اور پچھلے فیصلے کا بھی حوالہ دیا جس میں کہاگیاتھا کہ ہندو میریج ایکٹ (ایچ ایم اے)کا سیکشن 24(گذارے اور کاروائی کے اخراجات)کسی بھی شریک حیات کو مالی مدد فراہم کرنے کے لئے تیار کیاگیا ہے‘مخلصانہ کوششوں کے باوجود جواپنی کفالت کرنے سے قاصر ہیں۔

عدالت نے نوٹ کیاکہ گذارے کے لئے اخراجات دعویدار شریک حیات کی معاونت اور قانونی کاروائی سے وابستہ اخراجات پر مشمل ہے۔

عدالت نے درخواست گذار خاتون کی درخواست میں کوئی میرٹ نہیں پایا اوراس کو خارج کردیا ہے۔