پھول کی طرح کھلنا مرجھانا
زندگی تیرا مدّعا ہے کیا
دیوار ٹرمپ
امریکہ میں غیرقانونی ایمیگریشن کے مسئلہ کو حل کرنے کیلئے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی ساری کوششیں کرلی ہیں۔ میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے کی ضد میں انہوں نے شٹ ڈاؤن کا سنگین مرحلہ ختم کرنے کے بجائے امریکہ کی اقتصادی جڑوں کو کمزور کرنے والی صورتحال پیدا کردی ہے۔ صدر ٹرمپ دیکھنے میں امریکہ کے صدر ہیں لیکن وہ دیکھنے اور عمل کرنے میں امریکی صدر کے فرائض کی انجام دہی میں کسی پوشیدہ ہاتھوں مجبور نظر آرہے ہیں۔ انہیں اب امریکی عوام کے سامنے اپنا قد چھوٹا نظر آرہا ہے۔ امریکہ کی سرحدی دہلیز پر ٹرمپ کی انتخابی پالیسی سو رہی ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ صدارت کی ذمہ داری ایک طاقتور ہتھیار ہے جس کی مدد سے وہ اپنی مرضی چلا سکتے ہیں لیکن ڈیموکریٹس، کانگریس اور سینیٹرس کی صف میں انہوں نے خود کو محصور پا کر عجب حالات سے دوچار ہیں۔ انہوں نے اب کانگریس کی منظوری کے بغیر امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کیلئے ایمرجنسی یعنی قومی ہنگامی صورتحال کا اعلان کرنے کی دوبارہ دھمکی دی ہے۔ میکسیکو سرحد پر دیوار ٹرمپ کیلئے وقار کا مسئلہ بن گیا ہے۔ وہ اس دیوار کی تعمیر کیلئے 550 ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس مطالبہ کے بعد امریکہ میں تنازعہ پیدا ہوا۔ کرسمس کی تعطیلات اور شٹ ڈاؤن نے لاکھوں ملازمین کو تنخواہ سے محروم کردیا۔ امریکہ میں گذشتہ 20 دنوں سے جزوی ’’شٹ ڈاؤن‘‘ یا ہڑتال جیسی صورتحال پائی جاتی ہے۔ حکمراں پارٹی ریپبلکن پارٹی اور اپوزیشن ڈیموکریٹس کے درمیان دیوار کی تعمیر کے مسئلہ پر شدید اختلاف ہے جس کی وجہ سے ہی یہ شٹ ڈاؤن چل رہا ہے۔ سرکاری مشنری ٹھپ ہے۔ امریکہ کی صورتحال اور ٹرمپ کے ایمرجنسی جیسی دھمکیوں کے بعد ڈیموکریٹس کو یہ تو احساس ہونا چاہئے کہ امریکہ کے صدور کو بعض اختیارات حاصل ہیں۔ وہ جنگ یا قومی ایمرجنسی جیسی صورتحال کے دوران فوجی تعمیراتی منصوبوں کو براہ راست کرسکتے ہیں۔ اگر کانگریس نے میکسیکو سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لئے فنڈس جاری نہیں کئے تو پھر صدر کی حیثیت سے ٹرمپ کو سخت قدم اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ اگر انہوں نے ہنگامی اختیارات استعمال کئے تو اس کے بعد کی کیفیت نازک ہوجائے گی۔ صدر ٹرمپ اپنے انتخابی وعدے کے ساتھ میکسیکو سرحد پر 3000 کیلو میٹر طویل دیوار بنانا چاہتے ہیں۔ یہ دیوار میکسیکو کے راستہ امریکہ میں داخل ہونے کی کوششش کرنے والوں کو روکنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ دنیا بھر کی تاریخ میں دو ملکوں کے درمیان سرحدی دیوار یا باڑ جیسی رکاوٹیں نئی نہیں ہیں لیکن امریکہ اور میکسیکو کے درمیان یہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کیلئے گلے کی ہڈی بن گئی ہے۔ دیوار برلن، دیوار چین جیسی مقبول دیواروں کی اپنی تاریخ ہے۔ برلن کی دیوار کو 27 سال قبل ہی گرا دیا گیا۔ اب مشرقی اور مغربی جرمنی کے لوگ ایک دوسرے سے باہم شیروشکر ہیں۔ دیوار چین ہی دنیا کی سب سے طویل اور لمبی دیوار ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی یہ دیوار چین کی اس تاریخی دیوار سے لمبی نہیںہوسکے گی۔ تاہم میکسیکو سرحد پر دیوار بنا کر وہ امریکہ کی سلامتی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں لیکن اس وقت وہ امریکی کانگریس کے سامنے ایسے مسائل ہیں جن کی کوئی صدا یاد نہیں ہے۔ شٹ ڈاؤن سے ہونے والی خرابیوں کو فوری ختم کرنے کیلئے صدر ٹرمپ کو اپنی ضد ترک کرنی چاہئے۔ ان کے دو سال کا دورصدارت محض ایک مسئلہ کی نذر ہوجائے گا۔ ڈیموکریٹس کے ہاتھوں وہ اپنی شکست سے بچنے کیلئے ہنگامی اقدامات کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اگر انہوں نے اپنی دھمکی کو روبہ عمل لایا تو پھر یہ ہنگامی صورتحال سرحد پر پیدا شدہ بحران کو دور کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوگی بلکہ مزید ابتری کے آثار نمایاں ہوں گے۔ لہٰذا صدر ٹرمپ کو اپنے موقف کے ساتھ جذباتی پن کو منسلک نہیں کرنا چاہئے۔
ہندوستان کے مینوفکچرنگ سیکٹر میں انحطاط
مودی حکومت میں کئی تجارتی و صنعتی شعبوں کو دھکہ پہنچا ہے۔ خاص کر ملک کا مینوفکچرنگ شعبہ بری طرح ابتری کا شکار ہے۔ گذشتہ سال کے مقابل پیداوار کی شرح گھٹ گئی ہے۔ 17 ماہ کی ریکارڈ گراوٹ درج کی گئی ہے۔ ملک کے صنعتوں میں پیداوار کی شرح نومبر 2017ء میں 8.5 فیصد درج کی گئی تھی۔ اب اس میں 0.5 فیصد گراوٹ آئی ہے۔ جی ایس ٹی کو کئی شعبوں میں گھٹانے کے باوجود ہندوستانی مارکٹ سے جی ایس ٹی کی ابتری کا اثر ختم نہیں ہورہا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس نے جس طرح جی ایس ٹی نافذ کرتے ہوئے عوام کو خاص کر تاجروں کو خوفزدہ کیا تھا اب جی ایس ٹی میں کمی کی تشہیر بھی اسی خطوط پر کرتے ہوئے عوام کے اندر شعور پیدا کریں۔ نیتی آیوگ کی یہ ذمہ داری ہیکہ وہ ملک کی پیداوار اور صنعتی ترقی کا جائزہ لیتے رہیں۔ سال 2019ء کے عام انتخابات پر توجہ مرکوز کرکے نیتی آیوگ کو پورے ملک کیلئے جامع بنانے کی ضرورت ہے۔ نیتی آیوگ ایک ایسا ادارہ ہے جس کو کامل اختیارات بھی حاصل ہیں۔ اس نے اپنے منصوبوں کا اعلان تو کیا ہے لیکن مودی حکومت کے اصلاحات اقدامات کو تیزی سے روبہ عمل لانے کیلئے ممکن اقدامات کی ضرورت ہے اس کو واضح نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم معاشی شعبہ کے ماہرین کو توقع ہیکہ آئندہ سال کے دوران ہندوستان کی مجموعی پیداوار 7.8 فیصد ہوجائے گی۔ مودی حکومت کے اچھے دن کا انتظار کرنے والے عوام کو کم از کم آنے والے سال سے بہتر توقع رکھنے کی ضرورت ہے۔ گذشتہ سال 2018ء میں نیتی آیوگ نے جو منصوبے بنائے تھے، ان میں سے کئی منصوبوں کو ہنوز روبہ عمل نہیں لایا گیا اور بعض پر عمل آوری ہوتی ہے تو اس کے نتائج سامنے نہیں لائے گئے ہیں۔