ذات پوچھنے کی یہ گھات کیا ہے
پوچھنے والے تیری اوقات کیا ہے
ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر امتیاز ایک لعنت سے کم نہیں ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں باصلاحیت اور اعلی عہدوں پر فائز افراد تک بھی مایوسیوں کا شکار ہونے لگے ہیں اور اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ ہندوستان میں ذات پات کی بنیاد پر بھید بھاؤ اور امتیازی سلوک کی ایک قدیم لعنت رہی ہے اور ملک میں اس کے خلاف ایک طویل اور بڑی جدوجہد بھی چلائی گئی ۔ اس جدوجہد کے ذریعہ اس لعنت پر قابو پانے میں کامیابیاں بھی ملی ہیں اور پچھڑے ہوئے طبقات کو سماج میں ان کا جائز اور واجبی مقام بھی ملنے لگا ہے ۔ ایک طویل جدوجہد کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان میں آج بھی ذات پات کے نظام پر عمل کیا جاتا ہے ۔ بھید بھاؤ کیا جاتا ہے ۔ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے ۔ پسماندہ اور پچھڑے ہوئے طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو سماج میں ان کا جائز مقام نہیں دیا جاتا بلکہ ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں اور ان کو آگے بڑھنے سے روکا جاتا ہے ۔ ہریانہ میں ایک سینئر آئی پی ایس عہدیدار کو تک بھی اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور اس آئی پی ایس عہدیدار نے خودکشی کرتے ہوئے اپنی جان گنوا دی ۔ اس متوفری عہدیدار نے ایک آخری مکتوب تحریر کرتے ہوئے ہریانہ کے ڈائرکٹر جنرل پولیس اور روہتک ضلع کے ایس پی کے خلاف اسے ذات پات کے تعصب کا نشانہ بنانے کا ذمہ دار قرار دیا تھا ۔ ذات پات کی بنیاد پر ایک آئی پی ایس عہدیدار کو اگر نشانہ بنایا جاسکتا ہے تو پھر عام آدمی کیلئے صورتحال کیا کچھ ہوسکتی ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے ۔ ویسے تو فرقہ پرستی کا زہر بھی سماج میں بہت گہرائی تک پھیلادیا گیا ہے اور ہر معاملہ کو فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہوئے سماج کے تانے بانے متاثر کئے جا رہے ہیں۔ ذات پات کے تعصب اور امتیاز کے تعلق سے یہ تاثر عام ہو رہا تھا کہ اب اس کا چلن کم ہوگیا ہے اور صورتحال میں بہتری پیدا ہوگئی ہے تاہم ہریانہ میں آئی پی ایس عہدیدار کی خود کشی نے اس خوش فہمی کو ختم کردیا ہے اور یہ حقیقت سامنے آگئی ہے کہ نسلی اور ذات پات کا تعصب آج بھی سماج میں موجود ہے ۔
ایک آئی پی ایس عہدیدار کی خود کشی محض ایک عہدیدار کی خودکشی تک محدود نہیں کہی جاسکتی ۔ اس کے سماج پر انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ یہ واقعہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ سماج اب بھی لعنتوں سے پاک نہیں ہوا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی گاوں میں ایک پنچایت کی جانب سے کسی پچھڑے ہوئے طبقہ کے فرد کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ ریاست کے ڈی جی پی اور ضلع کے ایس پی کی کرسی پر فائز افراد تک بھی ذات پات کی بنیاد پر تعصب برتتے ہیں اور امتیازی سلوک کیا جاتا ہے یا پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے عہدیدار کیلئے مشکلات پیدا کی جاتی ہیں تو یہ انتہائی افسوس کی اور تشویش کی بات ہے ۔ ہریانہ میں ڈی جی پی اور متعلقہ ایس پی کے بشمول کئی افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے ۔ ضلع ایس پی کا تبادلہ کردیا گیا ہے لیکن ریاست کے ڈی جی پی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ ضلع ایس پی کا محض تبادلہ بھی اس معاملہ میں کافی نہیں ہے ۔ اس سے حکومت کی سنجیدگی پر سوال پیدا ہوتے ہیں۔ حکومت کو اس معاملے کا نوٹ لیتے ہوئے جن عہدیداروں کے خلاف متوفی افسر نے الزامات عائد کئے ہیں قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جانی چاہئے ۔ اس طرح کے عہدیداروں کو معطل کیا جانا چاہئے ۔ ان کو گرفتار کرکے عدالتوں میں پیش کیا جانا چاہئے اور جس طرح سے معمولی جرائم پر طلباء کو بغیر ضمانتوں کے برسوں سے جیل میں رکھا گیا ہے اسی طرح سے ان عہدیداروں کی بھی ضمانتیں ہونے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔
ہریانہ کی حکومت اس افسوسناک واقعہ پر اس طرح کی کارروائی نہیں کر رہی ہے جیسی کی جانی چاہئے ۔ جو الزامات اعلی پولیس عہدیداروں پر عائد کئے گئے ہیں اگر وہ کسی عام آدمی پر عائد کئے گئے ہوتے تو وہ اب تک جیل میں ہوتے ۔ ان عہدیداروں کے خلاف ایسا کچھ نہیں کیا گیا ہے اور محض ایک ایس پی کا تبادلہ کرتے ہوئے آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے ۔ حکومت ہریانہ کو دکھاوے کے اقدامات کرنے کی بجائے سماج کی اس لعنت اور برائی کے خلاف سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملزم عہدیداروں کے خلاف قانون کے مطابق اور انتہائی سخت کارروائی کرتے ہوئے دوسروں کیلئے مثال قائم کرنی چاہئے ۔
ہندووں سے دیوالی کی خریدی !
فرقہ پرستانہ سوچ اور اشتعال انگیز بیانات اب بی جے پی تک محدود نہیں رہ گئے ہیں بلکہ بی جے پی کی چاپلوسی کرنے والی ہر جماعت اور اس کے قائدین بھی اسی طرح کی بولی بولنے لگے ہیں۔ مہاراشٹرا میں اجیت پوار کی این سی پی کے ایک رکن اسمبلی نے ہندووں کے نام پیام دیا ہے کہ وہ دیوالی کی خریدی صرف ہندو تاجروں سے کریں۔ این سی پی اجیت پوار کے رکن اسمبلی سنگرام جگتاپ نے یہ بیان دیتے ہوئے بی جے پی کی ذہنیت اور اسی کی بولی کا اظہار کیا ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ فرقہ پرستی کا زہر اب کئی گوشوں تک سرائیت کرگیا ہے بلکہ یہ سیاسی طور پر زندہ رہنے کا مجرب نسخہ سمجھا جارہا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ انتخابات میں میٹھی باتیں کرتے ہوئے ووٹ مانگنے والے کامیابی کے بعد فرقہ پرستی کا کڑوا زہر اگلنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ این سی پی لیڈر اجیت پوار نے رکن اسمبلی کے خلاف نوٹس جاری کرنے کا اعلان تو کردیا ہے تاہم یہ کارروائی کافی نہیں کہی جاسکتی ۔ اس طرح کی منفی اور فرقہ پرستانہ سوچ رکھنے والے رکن اسمبلی سے جواب طلب کرتے ہوئے اسے پارٹی سے معطل کیا جانا چاہئے ۔ دکھاوے کے اقدامات کوئی معنی نہیں رکھتے ۔