ذات پات کا سروے ‘ بی جے پی متفکر

   

تاریکیاں کچھ اور بھیانک سی ہوگئیں
اے درد ہجر تُو ہی بتا کتنی رات ہے
ہر مسئلہ کو ایک مخصوص نظریہ سے ملک کے عوام کے سامنے پیش کرنے میں مہارت رکھنے اور اس کے ذریعہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے والی بی جے پی کیلئے ایسا لگتا ہے کہ حالات بتدریج بدلنے لگے ہیں۔ بات صرف ہندو ۔ مسلم کی اگر ہو تو بی جے پی ہر حال میں اس سے فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی تاہم اب ایسے مسائل ابھرکر سامنے آنے لگے ہیں جن کے نتیجہ میں بی جے پی کی الجھنوں اور مشکلات میںاضافہ ہونے لگا ہے ۔ اولڈ پنشن اسکیم ہو یا پھر خواتین تحفظات میں او بی سی طبقات کو شامل کرنے کا مسئلہ ہو بی جے پی اس میں الجھن کا شکار ہونے لگی ہے ۔ اس کے علاوہ بہار میں چیف منسٹر نتیش کمار نے ایسالگتا ہے کہ ذات پات کی مردم شماری اور سروے کی جو رپورٹ جاری کردی ہے اس کے نتیجہ میں بی جے پی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور یہ مشکل اتنی بڑی ہوسکتی ہے کہ بی جے پی اور نریندر مودی بھی خود اس کو حل کرنے میں شائد کامیاب نہ ہونے پائیں۔ مردم شماری کے ذریعہ جن اعداد و شمار کی اجرائی عمل میں آ:ی ہے اس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کیلئے اب یہ مسئلہ نہ نگلتے ہی بنے اور نہ اگلتے ہی بنے والا ہوگیا ہے ۔ ایک طرف تو بہار میں بی جے پی نے ذات پات کے سروے اور مردم شماری کے فیصلے کی تائید کی تھی ۔ تاہم اب جبکہ اس کے نتائج کا اعلان کردیا گیا ہے تو پارٹی ان کو قبول کرنے میں عار محسوس کر رہی ہے اور اب اس سروے کی اہمیت اور اس سروے کے طریقہ کار پر ہی سوال اٹھانے لگی ہے ۔ در اصل بی جے پی کو یہ فکر لاحق ہوگئی ہے کہ ذات پات کی بنیاد پر جو مسائل پیدا ہونگے وہ اس کیلئے اقتدار سے دوری کا سبب بن سکتے ہیں۔ سماج میں تحفظات میں اضافہ کے مطالبات ہونے لگے ہیں۔ آبادی کے تناسب سے ملک کے اثاثہ جات اور اسکیمات میں حصہ داری کی بات ہونے لگی ہے ۔ یہ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ ملک میں اقتدار اعلی کو چلانے والے بیوروکریٹس میں پسماندہ طبقات اور او بی سی طبقات کی حصہ داری نہ ہونے کے برابر ہے ۔ بی جے پی اس سروے کے نتائج سے اس قدر متفکر ہوگئی ہے کہ اس پر خود وزیر اعظم رد عمل ظاہر کر رہے ہیں۔
بی جے پی کے مختلف قائدین اور ترجمان الگ الگ انداز سے اس مسئلہ پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے حالات کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا تھا کہ کانگریس نے ہندووں کو ذات پات میں بانٹنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ بھی صرف ہندو جذبات کو بھڑکانے اور ان سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش ہے ۔ سارا ملک جانتا ہے کہ خود نریندر مودی نے 2014 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل اپنے آپ کو او بی سی قرار دیتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کیا تھا ۔ کئی مواقع پر وزیر اعظم اور دوسروں نے ذات پات کا سہارا لیا ہے ۔ سماج میں پھیلے عدم مساوات کو دور کرنے کی بات کہی ہے لیکن جب ایک ریاست میں باضابطہ سروے کرتے ہوئے پسماندہ طبقات اور بہت زیادہ پسماندہ طبقات کے تناسب اور تعداد کو اجاگر کیا گیا ہے تو بی جے پی اس سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے ۔ بی جے پی کی بوکھلاہٹ صرف بہار تک محدود نہیں ہے ۔اس کے نتیجہ میں بی جے پی کا گڑھ سمجھی جانے والی ہندی ریاستوں میں بی جے پی کو سب سے زیادہ نقصان ہوسکتا ہے ۔ بی جے پی کو فکر بھی اسی کی لاحق ہے کہ سیاسی اعتبار سے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی ہندی ریاستوں میں بھی اگر ذات پات کی بنیاد پر سروے ہو اور اس کی بنیاد پر مختلف طبقات اگر اپنے حق کی بات کرنے لگیں تو پھر بی جے پی کیلئے مشکل صورتحال پیدا ہوسکتی ہے ۔ بی جے پی کو اپنے کٹر ووٹ بینک میں نقب لگتی محسوس ہونے لگی ہے اور یہی بات اسے تشویش میں مبتلا کر رہی ہے ۔
ذات پات کے سروے سے واضح ہوسکتا ہے کہ ملک میں کس طبقہ کی کتنی آبادی ہے ۔ کس طبقہ کو کتنی سیاسی نمائندگی حاصل ہے ۔ کس طبقہ کو کتنی سرکاری مراعات مل رہی ہیں۔ کون حقدار ہیں اور کس کو فوائد پہونچائے جا رہے ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کیلئے جو مشکل پیدا ہوگی وہ معمولی نہیں ہوگی اور اس سے نمٹنا بی جے پی کیلئے آسان نہیں ہوگا ۔ کانگریس نے بھی ذات پات کی مردم شماری کی حمایت کی ہے ۔ مدھیہ پردیش میں اقتدار ملنے پر اس سروے کا اعلان کردیا گیا ہے ۔ کرناٹک میں بھی کانگریس یہ سروے شروع کرنے والی ہے ۔ ایسے میں بی جے پی کیا حکمت عملی اختیار کریگی یہ دیکھنا دلچسپ اور اہم ہوگا ۔