ذاکر نائیک جس کوہندوستان پر اپنی نفرت پر مشتمل تقاریر اور مالی تغلب کارائیوں کے الزامات کاسامنا ہے‘ اس وقت سے نشانے پر ہیں جب انہوں نے ملیشیائی کے مذہبی اقلیتوں اور ملیشیائی مسلم اکثریت کے حوالے سے تبصرہ کیاتھا
پولیس کی جانب سے عوامی اجلاس میں خطاب پر امتناع عائد کرنے اور نسلی تبصرے پر ریمارکس کی وجہہ سے گھنٹوں پوچھ تاچھ کے بعد متنازعہ ہندوستانی اسلامی مبلغ ذاکر نائیک نے ملیشیاء میں اپنے نسلی اور حساس تبصرے پر معافی مانگی ہے۔
ذاکر نائیک جس کوہندوستان پر اپنی نفرت پر مشتمل تقاریر اور مالی تغلب کارائیوں کے الزامات کاسامنا ہے‘ اس وقت سے نشانے پر ہیں جب انہوں نے ملیشیائی کے مذہبی اقلیتوں اور ملیشیائی مسلم اکثریت کے حوالے سے تبصرہ کیاتھا۔
اسی ماہ اگست میں ہندوستان کی مسلم اقلیت کے مقابلے ملیشائی ہندؤں کو”سو گناہ زائد حقوق“ پر ملیشیاء میں دئے گئے بیان پر ملیشیائی پولیس نے پیر کے روز دس گھنٹوں نائیک سے پوچھ تاچھ کی‘ نائیک نے چین کے لوگوں کو ملک میں مہمان قراردیاتھا۔ملیشیاء میں نسل اور ذات پات ایک حساس معاملہ ہے‘ جہاں پر مسلم 32ملین آباد میں 60فیصد ہیں۔
ماباقی لوگ مذہبی چینی اور ہندوستانی ہیں جس میں زیادہ تر آبادی ہندوؤں کی ہے۔نائیک جو تین سال سے ملیشیاء میں مقیم ہیں نے اپنے ریمارک پر معافی چاہے اور زوردیا کہ وہ نسل پرست نہیں ہیں۔
انہو ں نے کہاکہ ان کے بیان کامطلب غلط نکالا گیا اور ”من گھڑت انداز میں اس کو منسوب کیاگیا“۔منگل کے روز جاری کردہ اپنے بیان میں انہوں نے کہاکہ ”ان کا مقصد کسی فرد یاکمیونٹی کو مایوس کرنا ہرگز نہیں تھا“۔
نائیک نے کہاکہ ”یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کے عین خلاف ہے‘ اور میں اس غلط فہمی پر اپنے دل کی گہرائیوں سے معافی مانگنا چاہتاہوں“۔
نائیک کو ملیشیاء میں مستقل سکونت دی گئی ہے اور کئی وزراء نے اس متنازعہ بیان کے بعد ملک سے نکالنے پر زوردیاہے
پولیس نے 15اگست سے نائیک کی عوامی جلسوں میں تقریر پر بھی روک لگادی ہے کیونکہ قومی سلامتی اور نسلی ہم آہنگی کو خطرہ لاحق ہے‘ اس بات کی جانکاری دی ترجمان اصواتی احمد نے رائٹرس کو دی۔
سرکاری میڈیانے کہاکہ وزیراعظم مہاتر محمد نے اتوار کے روز اپنے بیان میں ذاکر کو اسلام کی تبلیغ کے آزاد قراردیا اور کہامکہ مگر ملیشائی نسلی سیاست کے متعلق وہ بات نہیں کرسکتے ہیں۔