اب آنسو بھی نہیں آتے عقیدت کے لئے اُس کی
وہ گزرا دور ہم کو یاد اب کیوں بار بار آئے
ملک بھر میں اکثر و بیشتر ایسے واقعات پیش آ رہے ہیں جو مذہبی جنون اور ذہنی پراگندگی کا اظہار کرتے ہیں۔ کسی کو بھی نشانہ بناتے ہوئے ان کو نہ صرف مار پیٹ کی جا رہی ہے بلکہ ان کے خلاف مقدمات بھی درج کئے جا رہے ہیں اور متاثرہ افراد ہی قانون کے شکنجے میں کسے جا رہے ہیں۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے عناصر کو کھلی چھوٹ دی جا رہی ہے جس کے نتیجہ میں ان کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں اور وہ مزید منفی سوچ کو آگے بڑھاتے ہوئے بہیمانہ کارروائیاں انجام دے رہے ہیں۔ آج سارے ملک میں مذہبی جنون کو ہوا دینے میں کوئی کسر باقی نہیںرکھی جا رہی ہے ۔ سماج میں ہر طبقہ کو دوسرے کے خلاف متنفر کرنے میںلگاتار کوششیں ہو رہی ہیں۔ سماج میں ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں کو ہوا دینے اور خلیج بڑھانے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ گذشتہ دنوں میں دو ایسے واقعات پیش آئے ہیں جو ذہنی پراگندگی کو ظاہر کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ملک میں پیدا ہونے والی منفی سوچ کی عکاسی ہوتی ہے ۔ کیرالا کی دو راہباوں کو بجرنگ دل کارکنوں نے ایک ریلوے اسٹیشن پر نشانہ بنایا اور انہیں مارپیٹ کرتے ہوئے ان پر جبرا تبدیلی مذہب کروانے کا الزام عائد کیا تھا ۔ پولیس نے سارے معاملہ کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کرنے کی بجائے ان راہباوں کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کیا اور انہیں جیل بھیج دیا گیا ۔ ان راہباوں کی آج ضمانت منظور ہوئی اور جن تین لڑکیوں کا مذہب جبرا تبدیل کروانے کا دعوی کیا گیا تھا انہوں نے ایسی کسی زبردستی کی تردید کردی اور کہا کہ وہ بچپن سے ہی عیسائی مذہب کے دعائیہ اجتماعات میں شرکت کرتی رہی ہیں۔ اسی طرح کل ممبئی سے کولکتہ جانے والی انڈیگو کی ایک پرواز میں ایک مسافر نے دوسرے مسافر کو طمانچہ رسید کردیا ۔ جس مسافر کو طمانچہ رسید کیا گیا وہ مسلمان تھا اور ٹوپی پہنے ہوئے تھا ۔ اس مسافر کو دوران پرواز طبیعت میں بے چینی محسوس ہوئی تھی اور ساتھی مسافر نے برہمی کے عالم میں اس کو تھپڑ رسید کردیا ۔ تھپڑ کھانے والا مسافر کولکتہ ائرپورٹ پر اترنے کے بعد سے لاپتہ بتایا گیا ہے ۔ وہ اب تک اپنے گھر نہیں پہونچا ۔ گھر والے اس کے تعلق سے پریشان ہیں اور پولیس بھی اس کا پتہ چلانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ تاحال اسے کوئی کامیابی نہیں مل سکی ہے ۔
دونوں ہی واقعات انتہائی افسوسناک کہے جاسکتے ہیں ۔ عیسائی راہبائیں کسی کام کے سلسلہ میں آگرہ کا سفر کر رہی تھیں۔ قبائلی لڑکیاں ان کے ساتھ تھیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ ابتداء سے عیسائی مذہب کے اجتماعات میں شرکت کرتی رہی ہیں۔ اس کے باوجود محض بجرنگ دل کارکن کی شکایت پر پولیس نے کسی طرح کی تحقیق کئے بغیر ان کے خلاف مقدمہ درج کردیا اور راہباوں کو جیل بھیج دیا ۔ اب لڑکیاں کسی بھی طرح کی زبردستی کی تردید کر رہی ہیں۔ یہ معاملہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح سے ذہنی پراگندگی کا کھل کر مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور اقلیتی طبقات سے تعلق رکھنے والوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ یہ مذہبی جنون کی انتہاء ہے۔ ور افسوس کی بات یہ ہے کہ بیمار ذہنیت رکھنے والے عناصر ایسا کر رہے ہیں اور پولیس یا دوسری تحقیقاتی ایجنسیاں ایسے عناصر کی سرکوبی کرنے کی بجائے ان کی شکایت پر آنکھ بند کر کے کارروائی کر رہی ہیں یا پھر کارروائی کیلئے مجبور ہوگئی ہیں۔ یہ صورتحال انتہائی افسوسناک ہے اور اس کے نتیجہ میں نفاذ قانون کی مشنری پر سوال پیدا ہونے لگے ہیں۔ پولیس یا دیگر تحقیقاتی ایجنسیوں کو معاملہ کی تہہ تک پہونچنا ہوتا ہے ۔ اس کی تحقیقات کرنی ہوتی ہے لیکن پولیس ایسا نہیں کر رہی ہے ۔ راہباوں کے سفر میں رکاوٹ بننے اور ان کو زد و کوب کرنے والے عناصر کے خلاف پولیس نے کوئی مقدمہ درج نہیں کیا اور نہ ہی ان سے سوال کیا گیا کہ انہوں نے قانون اپنے ہاتھ میں کیوں لیا ۔ انہیں ایسا کرنے کا اختیار کس نے دیا تھا ۔ پولیس کا یہی رویہ بیمار ذہنیت رکھنے والے پراگندہ دماغی حالت والوں کی حوصلہ افزائی کاسبب بن رہا ہے ۔
جہاں تک انڈیگو طیارہ میں پیش آنے والے واقعہ کا سوال ہے تو اس کا ویڈیو سارے ملک میں وائرل ہوگیا تھا اور عوام نے اس پر برہمی کا اظہار کیا ہے ۔ خود طیارہ میں سوار دوسرے مسافرین نے طمانچہ رسید کرنے کی مخالفت کی تھی ۔ انڈیگو کا عملہ بھی اس طرح کی حرکت کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ تھپڑ رسید کرنے والے مسافر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ انڈیگو عملہ نے تھپڑ رسید کرنے والے مسافر کو ائرلائینس میں پرواز کرنے سے روک دیا لیکن یہ کافی نہیں ہے ۔ انڈیگو کو اس مسافر کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرواتے ہوئے اسے گرفتار کروانا چاہئے تھا جو نہیں کیا گیا ۔ دونوں واقعات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ ملک کی ٹرینوں اور طیاروں میں بھی سفر محفوظ نہیں رہ گیا ہے ۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے قبل اسکے کہ صورتحال قابو سے باہر ہوجائے ۔
پراجول ریونا کو قید کی سزاء
کرناٹک میں جنتادل ایس کے سابق رکن پارلیمنٹ پراجول ریونا کو عدالت نے گھریلو خادمہ کی عصمت ریزی کے معاملہ میں عمر قید کی سزاء سنائی ہے ۔ پراجول ریونا کا تعلق ایک بااثر سیاسی گھرانے سے ہے ۔ وہ خود بھی رکن پارلیمنٹ رہ چکے ہیں۔ اس کے باوجود کرناٹک کی پولیس نے موثر اور کسی دباؤ کے بغیر تحقیقات کو مکمل کیا اور ریونا کو عدالت سے سزا دلانے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ ریونا کو سزاء دوسرے سیاسی قائدین کیلئے ایک مثال بن سکتی ہے اور بنائی جانی چاہئے ۔ ملک میں کئی سیاسی قائدین کے خلاف سنگین مقدمات درج ہیں۔ ان پر عصمت ریزی اور قتل جیسے مقدمات بھی درج ہیں۔ تاہم یہ تمام قائدین اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے سزائوں سے بچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ پولیس یا ایجنسیاں ان کے خلاف تحقیقات کو موثر ڈھنگ سے آگے بڑھانے میں ناکام رہتی ہیں۔ تاہم پراجول ریونا کو جو سزا سنائی گئی ہے وہ قابل خیر مقدم ہے ۔ اس طرح کی مثالیں دوسروں کیلئے عبرت کا سبب بن سکتی ہیں اور دوسروں کی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے ۔ جہاں کہیں با اثر افراد کے خلاف ایسے سنگین مقدمات ہیں ان میں پولیس اور دیگر ایجنسیوں کو کسی دباؤ کے بغیر تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے ۔