راجستھانی نوجوان کشمیر میں ایم اے (اسلامیات) کرنے کا خواہاں

   

اذان جاوید
سری نگر سے موصولہ اطلاع کے بموجب راجستھان کے علاقہ الوار کے متوطن شبھم 21 سالہ یادو نے ایک کارنامہ کردکھایا ہے۔ غیر مسلم اور غیر کشمیری ہونے کے باوجود اس نے کل ہند داخلے کے امتحان میں جو ایم اے (اسلامیات) میں داخلے کے لئے ہوا تھا سنٹرل یونیورسٹی کشمیر میں سب سے اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے لیکن اس کے خیال میں یہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے۔
میں کئی کال وصول کرچکا ہوں جن میں صحافیوں کے کال بھی شامل تھے جو اسے ایک عظیم کارنامہ سمجھتے تھے کہ داخلے کے امتحان میں سب سے اونچا مقام حاصل کیا جائے۔ حالانکہ یہ حقیقت میں کوئی عظیم کارنامہ نہیں ہے۔ کسی بھی موضوع پر داخلے کے امتحان میں جیسے ’’قانون، تہذیب اور رویہ‘‘ ہے۔ داخلہ کے امتحان میں سب سے سرفہرست مقام حاصل کرنا یادو کے بقول کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے۔
ایک آرزو مند سرکاری ملازم کی حیثیت سے یادو نے رسالہ ’’دی پرنٹ‘‘ سے کہا کہ درحقیقت اس کے اسلام کے بارے میں عجیب و غریب تصورات تھے لیکن یہ دیکھنے کے بعد کہ اسلاموفوبیا اور مذہبی صف بندی عالم گیر سطح پر بڑھتی جارہی ہے۔ اس نے اس کی وجوہات معلوم کرنے کے لئے اسلامیات کا مطالعہ کرنا پسند کیا۔

بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا اور مذہبی صف بندی کی وجہ سے اس کے خیال میں ایک دوسرے کے مذاہب کو سمجھنے کی انتہائی اہم ضرورت موجودہ دنوں اور دور میں پیدا ہوگئی ہے۔ بدقسمتی سے اسلام کے بارے میں کئی ایک ہی قسم کی رائے دی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اسلامی مطالعہ کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے۔ یادو کے بقول اسلامی قانون اور تہذیب صرف مسلمانوں کے مشاہدہ سے تعلق نہیں رکھتے۔
ان کے خیال میں آئندہ دنوں میں انتظامیہ کو بھی ایسے نظاموں کی ضرورت ہوگی جو ہندووں اور مسلمانوں دونوں کے لئے یکساں طور پر قائم کئے جاسکیں اور اس کے لئے انتظامیہ کو ایسے افراد کی ضرورت ہوگی جو مذہب کے بارے میں زیادہ معلومات رکھتے ہوں۔ میں چاہوں گا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ قدرتی ہوگا۔

ایک خوش آئند اقدام
طلبہ کی فہرست جس میں 40 سے زیادہ طالب علم شامل ہیں امتحان میں شرکت کرنے والوں کے لئے جاری کردی گئی۔ پروفیسر حمید اللہ مرازی صدر سی یو کے مذہبی مطالعہ جات زمرہ سی یو کے سری نگر نے یہ فہرست جاری کی۔
یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ شبھم کا نام سرفہرست ہے۔ میں نے 2015 میں ان کے شعبہ کو ٹیلی فون کیا اس وقت سے اب تک ملک بھر کے کئی غیر مسلم طلبہ نے اسلامیات کا مطالعہ کرنے کے لئے اسلامیات کے شعبہ میں داخلہ لیا۔ انہیں دو موضوعات پیش کئے گئے تھے۔ اسلام کے مطالعہ جات اور مذاہب کا تقابلی مطالعہ۔

لیکن یہ پہلی بار ہے جبکہ کشمیر میں کوئی غیر مسلم طالب علم اسلامیات کے شعبہ میں سرفہرست آیا ہے۔ اس کی شناخت سے کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا لیکن طلبہ اس مطالعہ میں دلچسپی لے رہے ہیں تاکہ کئی تہذیبی اختلافات کا جائزہ لے سکیں یہ ایک قابل خیرمقدم اقدام ہے۔ پروفیسر مرازی نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ یادو کشمیر میں مطالعہ کا رخ بدل دیں گے۔
یادو جس نے فلسفے سے گریجویشن کی تکمیل کی ہے جانتے ہیں کہ داخلے کے امتحان میں کتنی مشکلات پیش آتی ہیں اور اسلامیات کے کورس میں داخلہ کا امتحان کتنا مشکل ہوسکتا ہے لیکن انہوں نے قانون کے موضوع پر مذہبیات کو ترجیح دی اور باوقار دہلی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی بجائے کشمیر یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ دہلی یونیورسٹی کا قانون کا کورس اور اس کا داخلہ امتحان 18 نومبر کو مقرر تھا۔
میری پہلی ترجیح قانون کا مطالعہ تھی۔ یادو نے کہا لیکن میں یو پی ایس سی امتحانات میں بھی شرکت کی تیاری کرنا چاہتا تھا جو آئندہ مقرر ہے۔ دہلی یونیورسٹی کا طالب علم ہونے کی وجہ سے یہ بالکل درست اقدام تھا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ سیول سرویسیس کے امتحان کی تیاری کریں تو ایسا ہی کرنا چاہئے۔
یادو کے والد راجستھان میں ایک چھوٹے سے کاروبار میں مصروف ہیں۔ ان کی والدہ تاریخ کی ٹیچر ہیں۔ یادو نے کہا کہ ان کے والدین ’’بہت فراخدل ہیں خاص طور پر جب تعلیم کا سوال پیدا ہوتا ہے‘‘۔
انہیں میرے نتائج پر خوشی حاصل ہوئی اور انہوں نے واضح طور پر مجھ سے کہہ دیا کہ میں جس میدان میں بھی مطالعہ کرنا چاہتا ہوں کرسکتا ہوں۔ اگر میں دہلی یونیورسٹی کے امتحانات میں کامیاب نہ رہوں تو ممکن ہے کہ سنٹرل یونیورسٹی کشمیر میں اپنا مقام حاصل کرسکوں۔ مذہبی اور اسلام کا مطالعہ ایک ایسا موضوع ہے جس کا اس شعبہ میں شرکت کئے بغیر بھی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔