منزلیں دشوار تر اب ہوتی جاتی ہیں مری
دشت تنہائی میں سب سود و زیاں ہوتا گیا
ملک کی پانچ ریاستوں میں جیسے جیسے انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے انتخابی اور سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں ۔ بی جے پی کی جانب سے راجستھان میں اقتدار حاصل کرنے اور مدھیہ پردیش میں اپنا اقتدار بچانے کی جدوجہد کی جا رہی ہے ۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ جارحانہ تیور کے ساتھ کانگریس پارٹی جس طرح انتخابات میں مقابلہ کر رہی ہے بی جے پی کیلئے صورتحال مشکل ہوتی جا رہی ہے ۔ جہاںمدھیہ پردیش میں بی جے پی کیلئے اپنا اقتدار بچانا مشکل ہوتا جا رہا ہے وہیں راجستھان میں بھی صورتحال پارٹی کیلئے مشکل ترین ہوتی جا رہی ہے ۔ جس طرح سے ریاست میں ہر پانچ سال میںاقتدار بدلنے کا رجحان ہے ایسا لگ رہا ہے کہ اس بار یہ روایت بدل جائے گی ۔ بی جے پی میں جو داخلی خلفشار چل رہا ہے اس سے بھی پارٹی کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ جس طرح سے داخلی سطح پر پارٹی میں گروپ بندیاں ہوگئی ہیں ان کو روکنا یا ان پر قابو پانا بی جے پی کیلئے مشکل ہوگیا ہے ۔ امیدواروں کی پہلی فہرست میں سابق چیف منسٹر وسندھرا راجے سندھیا کا نام شامل نہیں تھا اور نہ ہی ان کے حامیوں کو ٹکٹ دئے گئے تھے ۔ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ بی جے پی میں وسندھرا راجے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ وسندھرا راجے بھی پارٹی سرگرمیوں میں یا تو دکھائی نہیں دے رہی تھیں یا پھر ان میں اس جوش و خروش کا فقدان دکھائی دے رہا تھا ۔ آج بی جے پی نے اپنی دوسری فہرست جاری کرتے ہوئے وسندھرا راجے کو بھی ٹکٹ دیا ہے اور ان کے حامیوںکو بھی میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ در اصل بی جے پی میں داخلی خلفشار کو ختم کرنے اور توازن برقرار رکھنے کی کوشش ہے تاہم یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس کوشش میں تاخیر ضرور ہوگئی ہے اور عوامی سطح پر پارٹی کو جو نقصان ہونا تھا وہ ہوچکا ہے ۔ بی جے پی اب اس نقصان کی پابجائی کی کوشش کر رہی ہے تاہم یہ کوشش کس حد تک کامیاب ہوگی یہ ابھی کہا نہیں جاسکتا ۔ عوام میں یہ احساس ضرو ر پیدا ہوگیا ہے کہ بی جے پی کے داخلی اختلافات اس کے انتخابی امکانات پر اثر انداز ہونگے اور عوام میں اس کی جو متحدہ مقابلہ کی شبیہہ تھی وہ متاثر ہوگئی ہے ۔ اس کی وجہ سے بی جے پی کا روایتی ووٹر بھی اس بار پارٹی سے دوری اختیار کرسکتا ہے ۔
بی جے پی کے داخلی اختلافات نے کانگریس کیلئے ریاست میں صورتحال بہتر کردی ہے ۔ سب سے پہلے تو کانگریس میں چیف منسٹر اشوک گہلوٹ اور سابق ڈپٹی چیف منسٹر سچن پائلٹ کے مابین اختلافات ختم ہوگئے ہیں۔ دونوں ہی قائدین اب مشترکہ انتخابی ریلیوں اور جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس کے امکانات کو بہتر بنا رہے ہیں تو ایک دوسرے کے تائیدی اور حامی امیدواروں کو بھی کانگریس کی امیدواروں کی فہرست میں جگہ فراہم کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ اشوک گہلوٹ حکومت نے گذشتہ ایک سال یا چھ مہینے کے دوران عوامی مقبولیت کی اسکیمات کا اعلان کیا ہے ۔ ان پر عمل کرتے ہوئے ریاست کے عوام کو سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ عوام کی نبض کو سمجھتے ہوئے یہ فیصلے اور اعلانات کئے گئے ہیں۔ ان کے نتیجہ میں بی جے پی کیلئے اپنا منشور تیار کرنا بھی مشکل ہوگیا تھا ۔ عوام کو سہولیات دئے جانے کو مفت کی ریوڑی قرار دینے والی بی جے پی بھی اب اسی طرح کے وعدے کرنے پر مجبور ہوگئی ہے ۔ یہ کانگریس کے اقدامات کی نقل ہے ۔ اس کے نتیجہ میں عوام میں بی جے پی کی جو ساکھ تھی وہ متاثر ضرور ہوئی ہے ۔ جو وقت بی جے پی نے اپنے قائدین کے باہمی اورآپسی اختلافات کی وجہ سے گنوا دیا ہے اس دوران کانگریس نے اپنے اختلافات کو دور کرلیا ہے اور عوام میں ایک مثبت اور اچھا پیام دینے میں بھی پارٹی کامیاب رہی ہے ۔ یہ تبدیلیاں کہا جا رہا ہے کہ پارٹی کے انتخابی امکانات پر مثبت اثر ڈالنے والی ہوسکتی ہیں۔
جس طرح سے وسندھرا راجے سندھیا کو گذشتہ ہفتوں میں نظر انداز کیا گیا اور پارٹی قائدین میں باہمی ناراضگیاں فروغ پائیں ان کی وجہ سے بی جے پی کی اعلی قیادت کو بھی ایک سے زائد مرتبہ ریاست کی صورتحال پر توجہ کرنی پڑی تھی ۔ کئی قائدین کو سمجھانے اور منانے کے دوران وزیر اعظم کا یہ اعلان بھی بہت اہمیت کا حامل رہا کہ ریاست میں بی جے پی کا صرف ایک چہرہ ہے اور وہ کنول کا پھول ہے ۔ اس طرح انہوں نے یہ بھی واضح کردیا تھا کہ وسندھرا راجے اگر انتخابی میدان میں اتاری بھی جائیں گی تب بھی وہ چیف منسٹر عہدہ کی امیدوار نہیں ہونگی ۔ پارٹی کے اس اعلان کے نتیجہ میں بھی عوام میں بی جے پی کے تعلق سے وہ جوش و خروش موجود نہیں رہ گیا ہے جو پارٹی کو کامیابی سے ہمکنار کرسکے ۔
کناڈا سفارتکاروں کی واپسی
ہندوستان نے کناڈا کے تعلق سے مساویانہ سفارتی موجودگی کو یقینی بناتے ہوئے تین درجن سے زائد سفارتکاروں کے تخلیہ کی ہدایت دی تھی جس کے بعد کناڈا نے ان کو وطن واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ حالیہ عرصہ میں کناڈا ۔ ہندوستان تعلقات میں جو سفارتی کشیدگی پیدا ہوئی ہے اس کے بعد اس طرح کے اقدامات کی توقع کی جا رہی تھی ۔ کناڈا میں ہندوستانی سفارتکاروں کی تعداد گھٹ کر 21 رہ گئی تھی جس کے بعد ہندوستان نے بھی کناڈا کے اتنے ہی سفارتکاروں کی موجودگی سے اتفاق کیا تھا اور مابقی کو واپس طلب کرنے کو کہا تھا ۔ اب کناڈا نے ان کو واپس طلب بھی کرلیا ہے ۔ در اصل جن سفارتکاروں کی واپسی عمل میں آئی ہے ان کے تعلق سے کہا جارہا ہے کہ وہ غیر سفارتی سرگرمیوں میں ملوث ہو رہے تھے ۔ اس طرح کی سرگرمیاں کسی بھی ملک میں کسی بھی ملک کے سفیروں کو ذیب نہیں دیتیں۔ کناڈا کو ہندوستان کے داخلی امور کا احترام کرنا چاہئے اور کسی بھی طرح کی مداخلت سے گریز کرنا چاہئے ۔ ہندوستان نہ خود کسی کے داخلی معاملات میں مداخلت کرتاہے اور نہ اپنے معاملات میں کسی مداخلت کو قبول کرتا ہے ۔ کناڈا کو اس بات کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے ۔