راجستھان ‘ طلباء کی خودکشیاں

   

راجستھان کا کوٹہ شہر ملک میں تعلیمی مرکز کے طور پر شہرت رکھتا ہے ۔ ہندوستان کے کونے کونے سے بلکہ بسا اوقات دنیا کے دوسرے ممالک سے بھی کئی طلباء تعلیمی میدان میں اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے کوٹہ کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں تقریبا تمام مسابقتی امتحانات کی کوچنگ دی جاتی ہے ۔ کوٹہ کے ماحول کو تعلیمی ماحول قرار دیا جاتا رہا ہے اور یہاں کے عوام بھی طلبا برادری کیلئے اپنے دلوں میں جذبہ رکھتے ہیں۔ کوٹہ سے تعلیم پانے والے کئی طلبا و طالبات نے مسابقتی امتحانات میں نمایاں کارکردگی دکھائی بھی ہے ۔ انہوں نے مسابقتی امتحانات کو کامیاب کرتے ہوئے اعلی عہدے بھی حاصل کئے ہیں۔ وہ یہاں کے تعلیمی ماحول میں خود کو ہم آہنگ کرنے میں کامیاب رہے تھے ۔ تاہم حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ مسابقتی امتحانات کا جو بوجھ ہے اس نے صورتحال کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے ۔ یہاں کے انسٹی ٹیوٹس اور تعلیمی اداروں میں طلبا کی تعلیم و تربیت اور ان کی امتحانی تیاریوں پر تو خاص توجہ دی جارہی ہے لیکن ان کی ذہنی حالت کو مستحکم رکھنے اور ان کی تعلیم اور سکون میں توازن رکھنے میں ناکامی ہونے لگی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر و بیشتر یہاں طلبا تعلیمی دباؤ اور ذہنی تناؤ کی وجہ سے خود کشی کرنے لگے ہیں۔ حالیہ چند مہینوں میں ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔ کئی طلباء و طالبات نے ذہنی تناؤ کی وجہ سے خود کشی کرلی ہے ۔ جو والدین اپنے بچوں کو یہاں بہتر مستقبل کیلئے روانہ کرتے ہیں وہ اپنے بچوں سے ہی محروم ہونے لگے ہیں۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس نے کئی گوشوں میں اور خاص طور پر والدین میں تشویش پیدا کردی ہے ۔ یہ واقعی قابل تشویش بات بھی ہے ۔ نوجوان طلبا و طالبات کا خود کشی کرلینا باعث تشویش ہی ہوسکتا ہے ۔ ریاستی حکومت اور ضلع انتظامیہ کی جانب سے خود کشی کی وجوہات کا جائزہ لینے اور طلباء کیلئے سازگار اور بہتر ماحول فراہم کرنے کیلئے اقدامات بھی کئے جا رہے ہیں۔ خود کشی کی وجوہات کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے۔ طلبا کیلئے جہاں قوانین بنائے گئے ہیں وہیں تعلیمی اداروں اور انسٹی ٹیوٹس کیلئے بھی رہنما خطوط تیار کئے گئے ہیں لیکن خود کشی کے رجحان میں کوئی کمی نہیں آئی ہے ۔
حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ کچھ وقت کیلئے خود کشی کے واقعات میں کمی ضرور آتی ہے لیکن جیسے ہی یہ تاثر عام ہوتا ہے کہ یہاں اب حالات بہتر ہونے لگے ہیں اچانک ہی خودکشی کے واقعات سامنے آنے لگتے ہیں۔ ریاستی حکومت کی جانب سے ایک 9 رکنی کمیٹی بناتے ہوئے خود کشی کے واقعات کی وجوہات کا پتہ چلانے اور ان کے سدباب کے اقدامات کی کوشش کی گئی تھی ۔ کمیٹی نے اب اپنی رپورٹ بھی پیش کردی ہے ۔ کمیٹی کی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ طلبا کو علیحدہ گروپس اور رینکس میں نہیں باٹا جانا چاہئے ۔ ان کے ٹسٹس اور امتحانات کے نتائج کو سر عام ظاہر نہیں کیا جانا چاہئے ۔ طلبا اگر اپنے کسی کورس میں تعلیم ترک کرنا چاہتے ہیں تو اس کی سہولت فراہم کرنے اور ان کی فیس کی واپسی کو اندرون چار ماہ مکمل کرنے جیسے اقدامات کی سفارش کی گئی ہے ۔ یہ ایسے اقدامات ہیں جن کا وقتا فوقتا تذکرہ کیا جاتا رہا ہے ۔ تاہم بنیادی بات یہ ہے کہ تعلیمی نظام کی موجودہ شکل و ہئیت اور اس کی پالیسی کا جائزہ لیا جائے ۔ یہ پتہ چلایا جائے کہ موجودہ تعلیمی نظام تو طلبا میں ذہنی تناؤ اور دباؤ کی وجہ تو نہیں ہے ۔ اگر ایسا ہے تو اس کے سدباب کیلئے کیا کچھ کیا جانا چاہئے ۔ نہ صرف کوٹہ میں بلکہ ملک کے دوسرے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا سے اس سلسلہ میں مذاکرات ہونے چاہئیں ۔ انہیں اعتماد میں لیتے ہوئے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ جو خامیاں اور نقائص سامنے آئیں ان کو دور کرنے کیلئے فوری موثر اقدامات کئے جائیں ۔
ملک کا تعلیمی نظام ایک سخت پیرائے میں کام کرتا ہے ۔ ہم نے مختلف مسابقتی امتحانات کیلئے مختلف انداز کی پالیسیاں بنائی ہوئی ہیں۔ اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ جو طلبا تعلیم کے دباؤ کو زیادہ دیر تک برداشت نہیںکرپاتے ان کی کونسلنگ کی جانی چاہئے ۔ ان کیلئے کچھ ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ زیادہ دباؤ اور تناؤ کے بغیر اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکیں۔ طلبا کو ذہنی طور پر مستحکم بنانے کیلئے بھی اقدامات ہونے چاہئیں۔ کچھ ایسا تعلیمی ماحول تیار کرنے کی ضرورت ہے جس میں ذہنی سکون کے ساتھ تعلیم کو آگے بڑھایا جاسکے ۔ طلبا کی خودکشیاں بہر صورت روکی جانی چاہئیں۔ اس کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جانے چاہئیں۔