راج ٹھاکرے ‘ وجود کا احساس دلانے کوشاں

   

مہاراشٹرا کی سیاست میں اپنی اہمیت پوری طرح گنوا چکے راج ٹھاکرے ایک بارپھر اپنی سیاست کو چمکانے اور اپنے سیاسی وجود کا احساس دلانے کوشاں ہوگئے ہیں۔ پس پردہ انہیں بی جے پی کی تائید و حمایت حاصل ہورہی ہے اوربی جے پی چاہتی ہے کہ مذہبی سیاست کے ذریعہ ہی مہاراشٹرا میں اتحادی حکومت کیلئے مسائل پیدا کئے جائیں۔ سیاسی امور میں تو بی جے پی حکومت کے خلاف نبرد آزما ہے ہی لیکن اسی سیاست کو مذہبی رنگ دیتے ہوئے بی جے پی حکومت کیلئے مسائل کو بڑھانا چاہتی ہے ۔ جہاں تک راج ٹھاکرے کا سوال ہے وہ وقفہ وقفہ سے کوئی نہ کوئی ہنگامہ کھڑا کرتے ہوئے اپنے وجود کا احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی سیاست محض مذہبی نوعیت کی ہے اور وہ غنڈہ گردی کی سیاست پر اتر آئے ہیں۔ وہ سیاسی اعتبار سے صفر ہونے کے بعد بی جے پی کی حکمت عملی کے مطابق مذہبی استحصال کی سیاست کرنے پر اتر آئے ہیں۔ مہاراشٹرا میں وہ خود بھی کوئی انتخاب جیتنے کے موقف میں نہیں ہیں۔ عوام نے انہیں اور ان کی پارٹی کو عملا مسترد کردیا ہے ۔ وہ محض بیان بازیوں یا پھر ڈرامہ بازیوں کے ذریعہ سیاست میں زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی اس کوشش کو بی جے پی شائد ہوا دے رہی ہے اوردرپردہ راج ٹھاکرے کی مدد بھی کی جا رہی ہے تاکہ سماج میںایک بار پھرفرقہ وارانہ منافرت کو بھڑکایا جائے اور عوام کو ایک دوسرے کے خلاف لا کھڑا کیا جائے ۔ لاوڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے راج ٹھاکرے نے ایک بار پھر مذہبی منافرت کی سیاست کا آغاز کیا ہے ۔ جن ریاستوں میں بی جے پی اقتدار میں ہے وہاں تو اس نے یہ کھیل بہت پہلے سے شروع کردیا ہے اور پوری طاقت اور شدت سے اس کھیل کو شروع کردیا گیا ہے ۔ اس کو نت نئے انداز سے آگے بھی بڑھایا جا رہا ہے ۔ مہاراشٹرا میں بی جے پی سیاسی اعتبارسے ادھو ٹھاکرے حکومت کو پریشان کرنے میں ناکام رہی ہے اسی لئے سیاسی اعتبار سے بیروزگار راج ٹھاکرے کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ ادھو ٹھاکرے بھی اسے اپنی سیاست کو چمکانے اور اپنے سیاسی وجود کا احساس دلانے کا موقع سمجھ رہے ہیں۔
بی جے پی مہاراشٹرا میں اسی راج ٹھاکرے کو استعمال کر رہی ہے جنہوں نے شمالی ہندوستان کے باشندوں کے خلاف مہم شروع کی تھی ۔ شمالی ہند کے افراد ہی بی جے پی کی اصل طاقت ہیں۔ وہیں سے اسے سیاسی استحکام اور طاقت ملتی ہے ۔ بی جے پی وہیںسے اپنے ایجنڈہ پر عمل کرنے کا آغاز کرتی ہے ۔ ہندی بولنے والی ریاستوں سے اختلافات کو ہوا دیتے ہوئے سارے ملک کے ماحول پر اثرکیا جاتا ہے ۔ راج ٹھاکرے کی شمالی ہند کے افراد کے خلاف مہم کی بی جے پی نے شدید مخالفت کی تھی ۔ تاہم جب یہ مسئلہ دب گیا اور راج ٹھاکرے ایک بار پھر بے اثر ہوگئے اور ان کی کسی نے ایک نہ سنی تو پھر اب بی جے پی مسلمانوں کے خلاف انہیں استعمال کرنے پر اترآئی ہے اور راج ٹھاکرے بڑی خوشی سے اس کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔ راج ٹھاکرے اس احساس کا شکار ہوگئے ہیںکہ وہ سیاسی اعتبار سے اگر اپنی پارٹی کو اوپر اٹھانا چاہتے ہیں تو ان کے پاس سوائے مذہبی منافرت پھیلانے کے کوئی اور راستہ نہیںرہ گیا ہے ۔ ان کے پاس نہ کوئی رکن اسمبلی ہے اور نہ کوئی رکن پارلیمنٹ ہے ۔ چند کارپوریٹرس کے ذریعہ وہ محض غنڈہ گردی کی سیاست کرتے ہوئے خود کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ شمالی ہند کے افراد کے خلاف مہم میںبھی انہوں نے غریبوں کو نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کیا تھا ۔ اب اسی غنڈہ گردی کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کے منصوبہ پر عمل کیا جا رہا ہے اور لاؤڈ اسپیکر اور اذان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔
مہاراشٹرا کی حکومت کو اس پر سخت گیرموقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔سیاسی بلیک میلنگ کی حکمت عملی کاشکارہوئے بغیر قانون کے مطابق اس صورتحال سے نمٹنے کی ضرورت ہے ۔ راج ٹھاکرے اور ان کی سرپرستی کرنے والے عناصر صورتحال کا استحصال کرنے اورسماج میں منافرت کو شدت کے ساتھ ہوا دینے کی پوری کوشش کر رہے ہیںلیکن حکومت اورانتظامیہ کو اس سازش کو ناکام بنانا ہے ۔ سیاسی بیروزگاری کو ختم کرنے کیلئے مذہبی منافرت کا استعمال کرنا ملک کے مفاد میں ہرگز نہیں ہے اور ملک کے مفادات کو نظرانداز کرنے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی سے حکومت کو گریز نہیں کرنا چاہئے ۔