راست بیرونی سرمایہ کاری میں کمی

   

یہ کہہ کے دل نے مرے حوصلے بڑھائے ہیں
غموں کی دھوپ کے آگے خوشی کے سائے ہیں
مرکزی حکومت کی جانب سے ملک کی معیشت مستحکم ہونے اور ملک میں بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ کے لگاتار دعوے کئے جاتے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ معاشی محاذ پر سب کچھ ٹھیک ہے ۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران ملک کی معیشت میں کچھ رکاوٹیں اس طرح کی پیدا ہونے لگی ہیں جن کے نتیجہ میں ملازمتوں کی تعداد میں کمی آتی جا رہی ہے اور زیادہ نوجوان بیروزگار ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تعلیم مکمل کرکے روزگار کی تلاش میں باہر آنے والے نوجوانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جو ملازمتیں ہیں وہ محدود تعداد میں ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود ان میں ملک بھر میں لاکھوں ملازمتیں تقرر طلب ہیں اور حکومتیں اخراجات کے بوجھ کی وجہ سے ان کو پر کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ کسی نہ کسی بہانے اور حیلے سے بھرتیوں کا عمل تعطل کا شکار ہی رکھا جا رہا ہے ۔ مسابقتی امتحانات کے انعقاد میں تاخیر کی جا رہی ہے ۔ یہ معاملات عدالتوں میں بھی زیردوران ہیں جن کی وجہ سے تقررات کا عمل متاثر ہو رہا ہے ۔ اس صورت میں خانگی ملازمتیں اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔بیرونی ادارے اور کمپنیاں اپنے دفاتر قائم کرتی ہیں اور جو صنعتی اور مینوفیکچرنگ یونٹس قائم کی جاتی ہیں ان میں ہزاروں روزگار نوجوانوں کو حاصل ہوتے ہیں اور ملک کی معیشت کا نظام روانی کا شکار رہتا ہے ۔ فی الحال یہ صورتحال ٹھیک دکھائی نہیں دے رہی ہے کیونکہ ملک میں راست بیرونی سرمایہ کاری میں کمی آ رہی ہے ۔ کئی بیرونی کمپنیاں ہندوستان سے اپنا سرمایہ سمیٹ کر دوسرے ممالک کا رخ کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ہندوستانی کمپنیاں اور ادارے بھی دوسرے ممالک میں تجارت کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں ان کے بموجب لگاتار دو مہینوں اگسٹ اور ستمبر میں ہندوستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں کی کا رجحان ہی دیکھا گیا ہے ۔ کئی کمپنیوں نے ہندوستان میں سرمایہ کاری سے اپنے ہاتھ کھینچ لئے ہیں۔ ماہ اگسٹ میں بھی یہی صورتحال دیکھی گئی تھی اور یہی صورتحال ماہ ستمبر میں بھی برقرار رہی ۔ یہ تشویشناک پہلو کہا جاسکتا ہے ۔
جہاںبیرونی سرمایہ کاری میں کمی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے وہیں ایک اور اہمیت کی بات یہ بھی ہے کہ جتنا سرمایہ ہندوستان آیا ہے بیرونی کمپنیوں نے اس سے زیادہ سرمایہ واپس نکال لیا ہے اور اسے دوسرے ممالک کو منتقل کیا جا رہا ہے ۔ جو کمپنیاں پہلے ہندوستان میں سرمایہ کاری اور اپنے یونٹس و اداروں کے قیام میں کافی دلچسپی کا مظاہرہ کیا کرتی تھیں وہی کمپنیاں اب سرمایہ کاری میں اضافہ کرنے کی بجائے اس سے دستبرداری اختیار کرنے لگی ہیں اور اپنے سرمایہ کو بہتر منافع کیلئے دوسرے ممالک کو منتقل کیا جا رہا ہے ۔ ساتھ ہی جو کمپنیاں ہندوستان میں سرمایہ کاری کیلئے آگے آ رہی ہیں ان کی تعداد یہاں سے واپسی اختیار کرنے والی کمپنیوں سے کم ہے اور جو سرمایہ مشغول کیا جارہا ہے وہ بھی واپس لئے جانے والے سرمایہ سے کم ہے ۔ اس کے نتیجہ میں یقینی طور پر ملک کی معیشت پر اثرات دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ چونکہ یہ رجحان ابھی شروع ہوا ہے اس لئے فوری طور پر کوئی اثر دیکھنے میں نہیں آیا ہے تاہم اگر یہی سلسلہ مزید چند ماہ تک جاری رہتا ہے تو پھر لازمی طور پر اس کے اثرات ملک کی معیشت اور معاشی سرگرمیوں کی روانی پر بھی دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ ہندوستان جیسے بڑے ملک میں یہ رجحان مثبت ہرگز نہیں کہا جاسکتا ۔ جس تیزی سے ہندوستان کی آبادی بڑھتی ہے اس تیزی سے معیشت کی ترقی کو بھی یقینی بنانا ہوتا ہے اور اسی تیزی سے معیشت کی روانی کوبرقرار رکھنا بھی ضروری ہوتاہے ۔ ایسا نہ ہو پائے تو معیشت کی رفتار سست ہوجاتی ہے ۔
کہا گیا ہے کہ ماہ اگسٹ اور ماہ ستمبر کے دوران جو سرمایہ ہندوستان آیا ہے اور جو سرمایہ ہندوستان سے باہر چلا گیا ہے اس میں دو بلین ڈالرس سے زیادہ فرق ہے ۔ اس طرح دو بلین ڈالرس کے سرمایہ سے ہندوستان محروم ہوا ہے اور اگر یہ سلسلہ چند ماہ اور جاری رہتا ہے تو بحیثیت مجموعی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونگے ۔ نہ صرف ملازمتوں کا شعبہ متاثر ہوگا بلکہ مینوفیکچرنگ سرگرمیاں بھی متاثر ہونگی ۔ مارکٹوں میں پیسے کی ریل پیل پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونگے ۔ عوام کی قوت خرید میں کمی آئے گی ۔ حکومت کو اس جانب فوری توجہ دینے اور ملک میںسرمایہ کاروں کے اعتماد کو برقرار رکھنے اقدامات کرنے ہونگے ۔