راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تیری رضا ہے

   

فریدہ زین
گزشتہ سے پیوستہ ۰۰۰۰ اپنے وفادار ساتھیوں کو مخاطب کرکے شاہ نے بخوشی لوٹنے کا حکم دیا حالانکہ یہ جاں نثار فدائے حسینؓ پروانہ وار شمع پر نثار ہونے بے قرار تھے اور اس زندگی کیلئے تیار نہ تھے جو حسین علیہ السلام کے بعد ہو ۔فنا کائنات کالازمی امر ہے ، ارض و سما کی ساری رونقیں مٹنے والی ہے پھر موت کے خیال کا دکھ کیسا ۔ اُسوۂ حسنہ تو صبر و رضا ، حق گوئی و توکل کی تعلیم دیتا ہے ، حکم ربی محور حیات ، اس کے آگے کچھ نہیں ، کچھ بھی نہیں ۔
شہادت حسینؓ نے ’لا‘ کی آفاقیت بتائی ۔ ’الااﷲ ‘کا مقصد واضح کیا ۔ ’كُنْ فَیَكُوْنُ‘ کا مفہوم سمجھایا ۔ ’اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصَّابِـرِيْنَ‘ کا درس دیا اور وہی اول وہی آخر کی حقیقت دکھادی۔ شب عاشور میں سجدوں کے مزے لئے گئے ۔ عبادتوں کا پورا لُطف اُٹھایا گیا ۔ شہادت کا شوق اور دیدار کاذوق تھا اس لئے نہ چشم نم ہوئی ، نہ دل نے خوف کھایا ۔ عزم محکم ہتھیار بنا ، رضائے الٰہی ڈھال بنی ،کربلا کی زمین پر پھیلی ریت کی گرمی سجدوں کے آتش شوق کے آگے ماند پڑگئی ۔ العطش کی صدا فرات تک پہونچی، موجیں اُبلنے بے قرار ہوئیں مگر حکم نہ ملا۔ کربلا کے اُداس ماحول میں شہدائے کربلا کی آخری نماز ادا ہورہی تھی ۔ سجدے مسرور تھے ، مسجود کو پانے کیلئے ، ذات حق کے دیدار سے دل منور اور حرارت ایمانی سے لبریز تھے ۔ خورشید جہاں تاب نے اُفق کے گوشے سے ڈرتے جھجکتے اپنا سر نکالا ، وہ تو چاہتا تھا کہ منہ چھپالے بادلوں کی اوٹ میں نہ وہ آئے نہ صبح ہو اور نہ روز محشر آئے … مگر حکم ربانی اِدھر دن کا کواڑ کھلا ، اُدھر طبلِ جنگ بجا، میدانِ کارزار شاہِ حسینؓ کی للکار سے دہلنے لگا : ’’میرے حسب نسب پر غور کرو کہ میں کون ہوں ؟ پھر اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اور سونچو کہ تمہیں میرا خون بہانا اور میری توہین کرنا جائز ہے … میں تمہارے نبیؐ کا نواسہ ہوں غور کرو تم میرے قتل پر کیسے آمادہ ہوگئے ۔ کس قصاص کا مجھ سے بدلہ لینا چاہتے ہو !‘‘ ۔ اس صدا کا اثر کسی پر نہ ہوسکا ، اور وہ وقت قیامت آیا کہ میدان کربلا کے ذرے ذرے کو خونی پیرہن ملا ۔ آفتاب نے تین دن تک منہ چھپالیا۔ کس میں تا ب و تواں تھی کہ وہ شہیدکربلا کو خاک و خون میں تڑپتا دیکھے ۔
بس وہ دن اور آج کا دن … نہ جانے کتنے آنسو بہائے گئے نہ جانے کتنی آہ و فغاں ہوئیں مگر سب آنسو ، ساری آہیں اس سانحہ عظیم کی یاد کو بھلا نہ سکے ۔ حسینؓ کا غم آفاقی غم ہے ، ہر مذہب ، ہر نسل ، ہرقوم کا انسان جو بیدار ہوچکا یہی پکارے گا کہ ’’ہمارے ہیں حسینؓ‘‘۔ حضرت امام حسینؓ کا غم عالمی حیثیت رکھتے ہوئے عالمی پیغام بھی دیتا ہے۔ ضرورت اس پیغام کو سمجھنے کی ہے ورنہ اس شہادت عظمیٰ پر صرف آنسوؤں کانذرانہ یا آہوں کا پیمانہ نچھاور کرنے سے کچھ حاصل نہیں ۔ شہادت حسینؓ کو صرف حق و باطل کے معرکہ تک محدود رکھنا نادانی ہوگی ۔ حق و باطل کے اندر ایک جہاں پنہاں ہے ۔ یہ حقیقت ہے ہرچیز فانی ہے مگر حسینؓ ابن علی ؓ کے لہو کے قطرے کبھی فنا نہیں ہوسکتے کہ یہ دعوت حق کے لئے بہے ہیں۔ محبت حسینؓ کا مقصد محض آنسو نہیں بلکہ اس مقصد شہادت کی اتباع ہے جو اسوۂ حسنہ کا مظہر ہے ۔ حق پرستوں کے لئے یہ شہادت دعوت ہے ۔

جو ظلمتوں سے نکال کر نور میں بلاتی ہے ، ظالم کے ظلم سے مقابلہ کیلئے کھڑا کرتی ہے ، انسانی حقوق کی غارت گری کے خلاف آواز اُٹھاتی ہے ۔ ان احکام کو ٹھکراتی ہے جو صداقت و عدالت کے خلاف ہوں۔ اس نفس سرکش کو مٹاتی ہے جو دشمن انسان ہے ۔ دریائے فرات کے کنارے کٹے ہوئے سر اور کچلے گئے جسم بہ ظاہر دوسرے کی فتح کا منظر پیش کرتے ہیں ، درحقیقت یہ وہ فتح و نصرت ہے جس نے دین کا پرچم اتنا بلند کردیا کہ اسے نیچا کرنے کے لئے پچھلے کئی صدیوں سے کوئی ہاتھ اُٹھ نہ سکا۔ اب ضرورت صرف اتنی رہ گئی ہے کہ غم حسینؓ کے ساتھ پیغام حسینؓ کو سمجھیں اور عمل کریں۔ شاید دین کی پاسبانی اس کے ناموس کیحفاظت کا مرحلہ اب جدید یزدیوں کے ساتھ معرکہ سے ہوگا ۔ مٹانے والوں کو مٹانادعوتِ حق کا اہم ترین تقاضا اور اُسوۂ حُسینی پر عمل پیرا ہونے کا جذبہ ہے ۔ سیدالشہداء نے بہتر (۷۲) نفوس کے ساتھ اپنی جان عزیز پر ۷۲ زخم کھاکر باطل سے ٹکرانے کی طاقت دی ہے ۔ سورہ ’العصر‘ کی مکمل تفسیر بن کر حقیقت بندگی سکھلادی ۔ ہماری غفلتوں کو اس ماہ محرم کے صدقے میں اﷲ رب عزوجل دور کرے اور ہمارے آنکھیں اس شعر پر مرکوز ہوکر ہمارے دل کی آنکھوں کو کھولددیں … حقا کہ بنائے لاالہٰ است حسینؑ …