راہول مسئلہ پر بی جے پی کی پریشانی

   

عظیم ہوتا ہے اظہارِ انکساری بھی
خیال رکھنا، کبھی میں کو ہم نہیں کرنا
راہول مسئلہ پر بی جے پی کی پریشانی
کانگریس لیڈر راہول گاندھی کو ہتک عزت مقدمہ میں سزا اور پھر ان کی لوک سبھا کی رکنیت منسوخ ہونے اور پھر انہیں بنگلہ خالی کرنے کی نوٹس کے مسئلہ پر بی جے پی کی پریشانی میںاضافہ ہونے لگا ہے ۔ بی جے پی نے بڑی تیزی کے ساتھ راہول گاندھی کے خلاف کارروائی کو تو یقینی بنادیا لیکن اس کے جو اثرات دکھائی دے رہے ہیںاس سے بی جے پی کی پریشانی بڑھ رہی ہے ۔ راہول گاندھی اور کانگریس کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف کارروائی در اصل اڈانی کو بچانے کی کوشش ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ راہول گاندھی کی ایوان کی رکنیت ختم کرنے کا مطالبہ اس وقت سے ہو رہا تھا جب ابھی سورت کی عدالت نے مقدمہ میںفیصلہ نہیں سنایا تھا ۔ جس وقت راہول گاندھی نے پارلیمنٹ میںاڈانی ۔مودی تعلقات پر ریمارکس کئے اور تحقیقات کیلئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ کیا تو اس وقت سے راہول گاندھی کی لندن تقریر کے مسئلہ پر ہنگامہ کھڑا کردیا گیا ۔ کئی گوشوںسے بلکہ وزراء کی جانب سے بھی مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ راہول گاندھی کی ایوان کی رکنیت ختم کردی جائے ۔ اس کے بعد بڑی تیزی کے ساتھ سورت کی عدالت سے فیصلہ آگیا اور پھر لوک سبھا کی رکنیت ختم ہوگئی اور پھر انہیں بنگلہ خالی کرنے کی نوٹس بھی دیدی گئی ۔ ان تمام تبدیلیوں کے بعد کانگریس پارٹی نے جس طرح سے موقف اختیار کیا ہے وہ شائد بی جے پی کو امید نہیں تھی ۔ کانگریس نے عدالت سے فیصلے کو ابھی تک چیلنج نہیں کیا ہے ۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ جتنا جلد ممکن ہوسکے کانگریس اور راہول گاندھی عدالت سے رجوع ہوں۔ ان کے خلاف سنائے گئے فیصلے پر حکم التواء حاصل کرلیا جائے ۔ ایوان کی رکنیت کو بحال کرلیا جائے اور پھر معاملہ ایسا ہی چلتا رہے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ کانگریس پارٹی اس معاملے میں کسی جلد بازی میں نہیں ہے ۔ وہ اس مسئلہ پر اپنا وقت لے رہی ہے ۔ وہ چاہتی ہے کہ ساری صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد ہی کوئی فیصہ کیا جائے ۔ اس کی لیگل ٹیم تمام پہلووں کا جائزہ لے رہی ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شائد راہول گاندھی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے سے ہی گریز کریں۔ حالانکہ ابھی اس مسئلہ پر واضح طور پر کوکسی رائے کا پارٹی کی جانب سے اظہار نہیں کیا گیا ہے ۔
اس کے علاوہ راہول گاندھی کو سزا اور ایوان کی رکنیت ختم کرنے کے مسئلہ پر اپوزیشن جماعتوں نے جس رد عمل کا اظہار کیا ہے وہ بھی شائد بی جے پی کیلئے توقع سے زیادہ تھا ۔ ایسی جماعتیں بھی راہول گاندھی کے خلاف کارروائی کی مذمت میںآگے آئیں جو کانگریس سے ہمیشہ سے دوری بنائے رکھنا چاہتی ہیں۔ ان میں ترنمول کانگریس کی ممتابنرجی ‘ سماجوادی پارٹی کے اکھیلیش سنگھ یادو اور بی آر ایس کے سربراہ کے چندر شیکھر راو بھی شامل ہیں۔ یہ سبھی قائدین وہ ہیں جو آئندہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کے خلاف محاذ بنانا چاہتے ہیں لیکن اس میں کانگریس کو شامل کرنے کے حامی نہیںہیں۔ یہ قائدین ہمیشہ ہی بی جے پی کے ساتھ کانگریس کو بھی تنقیدوں کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ تیسرے محاذ کی تشکیل کے ذریعہ کانگریس اور بی جے پی دونوںسے مساوی فاصلہ رکھنے کا یہ قائدین بارہا اعلان کرتے رہے ہیں۔ تاہم جس طرح سے انہوں نے راہول گاندھی کے مسئلہ پر حکومت کو نشانہ بنایا ہے اورا سے ایک طرح سے جمہوریت کا قتل قرار دیا ہے وہ بھی قابل غور ہے ۔ یہ جماعتیں اچانک ہی حکومت کے خلاف ایک محاذ پر ایک رائے ہونے لگی ہیں۔ حالانکہ ابھی ان میں اتحاد کے امکانات پر کوئی بات نہیں ہو رہی ہے لیکن یہ بات ضرور ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتیں حکومت کو نشانہ بنانے کے مسئلہ پر ایک رائے ضرور ہوگئی ہیں اور یہ سبھی جماعتوں کا مشترکہ موقف ہوگیا ہے ۔ یہی بات بی جے پی کیلئے زیادہ فکر اور تشویش کا باعث شائد بننے لگی ہے ۔
شائد یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے کئی قائدین اور بی جے پی کی ترجمانی کرنے والے ٹی وی اینکرس بارہا یہ سوال کر رہے ہیں کہ راہول گاندھی کیوں نہیںعدالت سے رجوع ہوتے ہوئے اپنے لئے راحت طلب کرلیتے ۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی قانونی حکمت عملی پر کسی سے تبادلہ خیال نہیں کرے گی اور جو فیصلہ مناسب رہے گا وہ مناسب وقت پر کیا جائیگا ۔ یہ بات ضرور موجودہ صورتحال میں واضح ہوتی دکھائی دے رہی ہے کہ بی جے پی کو اس سا رے مسئلہ میں پریشانی لاحق ہوگئی ہے ۔ وہ راہول گاندھی کو ملنے والی عوامی ہمدردی سے پریشان ہورہی ہے اور خاص طور پر اس لئے بھی کہ ملک کی کچھ ریاستوں میں اب اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کی پریشانی سیاسی اور قابل فہم دکھائی دیتی ہے ۔
کرناٹک ‘ قائدین کا انحراف
کرناٹک میں انتخابی بگل بج چکا ہے ۔ انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوچکا ہے ۔ ریاست میں 10 مئی کو ووٹ ڈالے جائیں گے اور 13 مئی کو ووٹوں کی گنتی ہوگی ۔ ویسے تو یہاں انتخابی ماحول بہت پہلے سے گرم ہو رہا تھا اور سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی تھیں۔ کئی قائدین ایک سے دوسری جماعت میںشمولیت کا سلسلہ شروع کرچکے تھے ۔ تاہم انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد ان سرگرمیوں میں مزید تیزی آگئی ہے ۔ کئی قائدین بہت تیزی کے ساتھ اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے میں لگے ہیں۔ بیشتر قائدین کا رخ کئی جماعتوں سے کانگریس کی جانب ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ کانگریس قائدین کا کہنا ہے کہ مزید کئی قائدین ہیں جو پارٹی میں شمولیت اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تمام قائدین در اصل اقتدار کی ہوس کا شکار ہیں۔ جس وقت تک بی جے پی اقتدار میں رہی اس کا ساتھ دیا گیا ۔ اب جبکہ ریاست میںتبدیلی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں ایسے میں یہ قائدین کانگریس کا رخ کرنے لگے ہیں۔ کانگریس بھی حالانکہ ان کو شامل کر رہی ہے لیکن اسے اس معاملے میں احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔ مشکل وقت میں کانگریس میں برقرار رہنے والے قائدین کی حق تلفی کئے بغیر دوسروںکو موقع دیا جانا چاہئے ۔ جو ماحول پارٹی کے حق میں دکھائی دے رہا ہے اس کو خراب ہونے سے بچانے کیلئے پوری احتیاط اور تحمل کے ساتھ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والوںپر کامل بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔