راہول گاندھی پر بی جے پی چراغ پا

   

قائد اپوزیشن راہول گاندھی ان دنوں امریکہ کے دورہ پر ہیں۔ وہاں مختلف فورمس میں وہ اظہار خیال کرتے ہوئے ہندوستان کے امور پر تبصرہ کر رہے ہیں۔ وہ ہندوستان میں درپیش حالات اور مختلف مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے بیانات دے رہے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ وہ ہندوستانی برادری سے ملاقاتوں میں یہ بیانات دے رہے ہیں۔ سیاسی قائدین اور جماعتوںمیں ایک دوسرے سے نظریاتی اختلافات ہوتے ہی ہیں۔ اسی طرح کانگریس اور بی جے پی کے نظریات میں سیاسی اختلافات ہیں۔ بی جے پی کے نظریات کو کانگریس مسترد کرتی ہے اور کانگریس کے نظریات کو بی جے پی مسترد کرتی ہے ۔ ایک دوسرے کو تنقیدوں کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے ۔ تاہم سیاسی اختلافات شدت اختیار کرتے ہوئے اب شخصی عناد و بغض کی شکل اختیار کرتے چلے گئے ہیں۔ خاص طور پر راہول گاندھی کو نشانہ بنانا بی جے پی کا وطیرہ رہا ہے ۔ حالیہ لوک سبھا انتخابات سے قبل تک بی جے پی کی ٹرول آرمی یہ کام انجام دیا کرتی تھی ۔ گودی اور زر خرید تلوے چاٹو میڈیا بھی اس میں وقتا فوقتا اپناکردار نبھایا کرتا تھا ۔ پارٹی کے سینئر قائدین یا مرکزی وزراء زیادہ کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا کرتے تھے ۔ اب صورتحال تبدیل ہوگئی ہے ۔ راہول گاندھی قائد اپوزیشن بن گئے ہیں۔ ان کا عہدہ بھی دستوری ہوگیا ہے ۔ ان پربھی ذمہ داری عائدہوئی ہے ۔ اب وہ جو بھی بیان دے رہے ہیں یا جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس پر بی جے پی کے سینئر قائدین اور ذمہ دار مرکزی وزراء رد عمل ظاہر کرتے ہوئے نشانہ بنانے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ راہول گاندھی نے اب تک امریکہ میں جو بیانات دئے ہیں بی جے پی اان پر چراغ پا نظر آ رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف احتجاج کئے جا رہے ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ اور وزیر دفاع بھی راہول گاندھی پر تنقید کر رہے ہیں۔ وزیر داخلہ امیت شاہ کا کہنا تھا کہ راہول گاندھی کو قوم مخالف بیانات دینے کی عادت ہوگی ہے اور وہ ان لوگوں کی طرح بیان دے رہے ہیں جو ملک کے خلاف سازش رچتے ہیں۔ یہ انتہائی سنگین الزامات ہیں۔ یہ معمولی نوعیت کے سیاسی بیانات نہیں کہے جاسکتے ۔
امیت شاہ ملک کے وزیر داخلہ ہیں۔ ان پر داخلی سلامتی کی ذمہ داری ہے ۔ ان کے بیانات اور الفاظ کی اہمیت ہوتی ہے ۔ اگر وہ کہتے ہیںکہ راہول گاندھی کے بیانات قوم مخالف ہیں یا پھر ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ راہول گاندھی کے خلاف مقدمات درج کیوں نہیں کئے جا رہے ہیں۔ حکومت خود بی جے پی کی ہے ۔ امیت شاہ خود وزیر داخلہ ہیں۔ ملک کا سارا نظم و نسق ان کے ہاتھ میں ہے ۔ اس کے باوجود اگر کوئی قوم مخالف بیانات دے رہا ہے تو پھر مقدمات کیوںدرج نہیں کئے جا رہے ہیں۔ عدالت میں کیوں نہیں انہیںگھسیٹا جا رہا ہے ۔ واقعتا اگر کوئی قوم مخالف بیان دیتا ہے تو اسے عدالتوں میںگھسیٹا جانا چاہئے ۔ الزامات ثابت کرتے ہوئے سخت ترین سزائیں دلائی جانی چاہئیں۔ تاہم اگر محض سیاست کرنے کیلئے اس طرح کے بیانات دئے جا رہے ہیں تو پھر یہ انتہائی افسوسناک ہے اور ملک کی داخلی سکیوریٹی ہو یا قومی مفادات ہوں ان کو داؤ پر لگاتے ہوئے کسی کو بیانات نہیں دینے چاہئیں۔ سیاسی اختلاف ضرور کیا جائے لیکن اس کو سیاست تک ہی محدود رکھا جانا چاہئے ۔ کسی کو بھی قوم مخالف بیانات دینے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے چاہے وہ راہول گاندھی ہوں یا پھر کوئی اور ۔ تاہم اگر کوئی ایسا نہیں کرتا ہے اور اس طرح کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں تو یہ بھی افسوسناک ہے اور اس پر بھی جواب طلب کیا جانا چاہئے بھلے ہی یہ بیانات دینے والے کسی بڑے عہدہ پر ہی فائز کیوں نہ ہوں۔
آج ملک بھر میں کئی افراد ایسے ہیں جن کا الزام ہے کہ بی جے پی حکومت کی جانب سے ان کے خلاف ناجائز مقدمات درج کرتے ہوئے انہیں جیلوں میں بند کیا گیا ہے ۔ ان کی ضمانتیں بھی کئی کئی برس نہیں ہو پا رہی ہیں۔ حالانکہ ان کے خلاف الزامات ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ اگر وزیر داخلہ کو لگتا ہے کہ راہول گاندھی قوم مخالف بیانات دے رہے ہیں ان کے خلاف مقدمات درج کرنے سے کیوں گریز کیا جا رہا ہے اس کی وضاحت کریں۔ محض الزام تراشی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ در اصل یہ ساری کچھ سیاست ہے اور اصل مقصد راہول گاندھی کو نشانہ بنانا ہے ۔ سیاسی فائدہ کیلئے ایسا ہو رہا ہے تو یہ مناسب نہیں ہے ۔