راہول گاندھی ‘ پہلی دستوری ذمہ داری

   

جذبۂ جنوں اپنا آج رنگ لایا ہے
منزلوں تک آپہنچے عزم کے سہاروں پر

کانگریس لیڈر راہول گاندھی لوک سبھا میں اپوزیشن کے قائد ہونگے ۔ کانگریس نے ان کو یہ ذمہ داری کا اعلان کیا ہے اور انڈیا اتحاد کی تمام حلیف جماعتوں نے اس سے اتفاق بھی کرلیا ہے ۔ راہول گاندھی ویسے تو پارلیمنٹ کیلئے لگاتار منتخب ہوتے رہے ہیں لیکن ماضی میں یو پی اے کی کانگریس زیر قیادت حکومت کی دو معیادوں میں بھی انہوں نے کوئی دستوری عہدہ یا ذمہ داری قبول نہیں کی تھی ۔ انہوں نے کوئی وزارت یا کوئی اور عہدہ بھی قبول نہیں کیا تھا ۔ کہا جا رہا تھا کہ راہول گاندھی کو وزارت عظمی کیلئے پیش کیا جاسکتا ہے اگر 2024 لوک سبھا انتخابات میں کانگریس زیر قیادت انڈیا اتحاد کو اکثریت حاصل ہوجاتی ۔ تاہم ایسا ہوا نہیں اور انڈیا اتحاد نے اچھا مظاہرہ ضرور کیا لیکن وہ اقتدار حاصل نہیں کرسکا ۔ راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کی قیادت میں کانگریس پارٹی نے لوک سبھا انتخابات میںاچھی کارکردگی کا مظاہرہ ہوا ہے اور اس کی نشستوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے ایسے میں کانگریس پارٹی کو لوک سبھا میں قائد اپوزیشن کا عہدہ حاصل ہوا ہے ۔ ابتداء ہی سے یہ کہا جا رہا تھا کہ راہول گاندھی کو اس عہدہ کیلئے پیش کیا جانا چاہئے ۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی میں ایک قرار داد منظور کرتے ہوئے بھی راہول گاندھی سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ قائد اپوزیشن کا عہدہ قبول کرلیں۔ اب راہول گاندھی بھی اس عہدہ کو قبول کرنے آگے آچکے ہیں اور ملک کی سیاست میں ایک مرکزی حیثیت رکھنے والے لیڈر کو پہلی بار کوئی دستوری ذمہ داری سنبھالنی پڑ رہی ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ گاندھی خاندان کیلئے یہ ذمہ داری کوئی نہیں ہے ۔ گاندھی خاندان میں تین نسلیں وزیر اعظم رہ چکی ہیں اور ملک کی سیاست پر اس کا غلبہ رہا ہے ۔ اس کے علاوہ راہول گاندھی اپنے خاندان میں تیسرے ایسے فرد ہونگے جو قائد اپوزیشن کا عہدہ سنبھال رہے ہیں۔ راجیو گاندھی اور سونیا گاندھی بھی لوک سبھا میں قائد اپوزیشن کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں۔ اب یہ ذمہ داری راہول گاندھی کے کندھوں پر آئی ہے ۔ اب یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے حکومت پر اثر انداز ہونے کی کوششیں زیادہ منظم اور مستحکم انداز میں کی جائیں گی ۔
سارا ملک اس حقیقت سے واقف ہے کہ ملک کی سیاست میں راہول گاندھی ایک مرکزی کردار بن گئے ہیں۔ جہاں کانگریس کی سیاست راہول گاندھی کے گرد گھومتی ہے تو یہ ایک فطری بات ہے ۔ وہ کانگریس کے سب سے زیادہ مقبول لیڈر ہیں۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی اور این ڈی اے کی سیاست بھی راہول گاندھی کے گرد ہی گھومتی ہے ۔ اکثر و بیشتر انہیںتنقیدوں کا نشانہ بناتے ہوئے ہی سیاست کی جاتی ہے ۔ ان کے امیج کو گھٹانے کیلئے باضابطہ مہم چلائی جاتی ہے اور ان کی ہر حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے ۔ راہول گاندھی اکثر و بیشتر حکومت کے خلاف الزامات عائد کرتے رہتے ہیں۔ بی جے پی قائدین ہوں یا پھر حکومت کے ذمہ داران ہوں ان پر کوئی جواب دینے کی بجائے ان کو جوابی تنقید کا نشانہ بنانے لگ جاتے ہیں ۔ تلوے چاٹنے والے اینکرس کے ذریعہ ان کے خلاف ٹی وی پر مہم چلائی جاتی ہے اور اصل مسئلہ سے توجہ ہٹادی جاتی ہے ۔ اب جبکہ راہول گاندھی قائد اپوزیشن بن گئے ہیں اور یہ ایک دستوری عہدہ ہے تو بی جے پی قائدین ہوں یا پھر حکومت کے وزراء ہوں یا ذمہ داران ہوں وہ ان کی تنقیدوں اور الزامات کو شائد نظر انداز نہیں کرپائیں گے ۔ انہیں راہول گاندھی کے سوالات کے جواب دینے پڑیں گے ۔ جو جواب دئیں جائیں گے وہ بھی ٹال مٹول والے یا چل چلاؤ والے نہیں ہوسکتے بلکہ مدلل اور تفصیلی جواب دینے ہوں گے اور اب تک بی جے پی یا پھر حکومت کے وزراء ایسا کرنے سے بچتے رہے ہیں۔
راہول گاندھی ایک حرکیاتی لیڈر ہیں۔ بی جے پی کی جانب سے بھلے ہی ان کی شبیہ بگاڑنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور بے دریغ دولت لٹائی گئی اس کے باوجود راہول گاندھی اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور کبھی بھی انہوں نے کسی خوف کا شکار ہوکر نرم موقف اختیار نہیں کیا ۔ ان کے خلاف مقدمات چلائے گئے اور سزائیں بھی کروائی گئیں اس کے باوجود راہول گاندھی نے پوری استقامت کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا ہے ۔ اب جبکہ وہ قائد اپوزیشن کی ذمہ داری سنبھال رہے ہیں ایسے میں یہ امید ضرور کی جاسکتی ہے کہ وہ دستوری ذمہ داری بھی پوری تندہی اور سرگرمی سے ادا کرتے ہوئے ان سے وابستہ توقعات کو پورا کریں گے ۔