راہول گاندھی کا جارحانہ انداز ، بی جے پی میں ہلچل ، مخالفین حیرت زدہ

,

   

بی جے پی کی نئی اُلجھن، تلگودیشم اور جنتا دل یونائٹیڈ کا راہول گاندھی پر تنقید سے گریز، وزارتِ عظمیٰ کا متبادل تیار، دنیا بھر سے لوک سبھا کی تقریر کی ستائش
راہول کی تقریر کے اہم حصوں کو ریکارڈ سے حذف کرنے پر عوام ناراض

حیدرآباد۔/2 جولائی، ( سیاست نیوز) ملک میں بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کی تشکیل کو ایک ماہ بھی مکمل نہیں ہوا لیکن لوک سبھا میں قائد اپوزیشن راہول گاندھی کے جارحانہ انداز نے بی جے پی حلقوں میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس میں قائد اپوزیشن کے طور پر راہول گاندھی نے 100 منٹ سے زائد اپنی مدلل تقریر میں بی جے پی اور سنگھ پریوار کو گھیرتے ہوئے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر سے ستائش حاصل کی ہے۔ گذشتہ دو میعادوں میں راہول گاندھی نے قائد اپوزیشن کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی۔ حالیہ لوک سبھا چناؤ میں کانگریس اور اس کی حلیف جماعتوں کے بہتر مظاہرہ اور بی جے پی کو اکثریت سے محرومی کے بعد راہول گاندھی نے قائد اپوزیشن کی ذمہ داری قبول کرلی۔ بھارت جوڑو یاترا کے ذریعہ ملک بھر میں عوام سے ملاقات اور پھر انتخابی مہم کے دوران طویل سفر نے راہول گاندھی کو ایک تجربہ کار سیاستداں بنادیا ہے اور عوامی مسائل پر ان کی گرفت سے حکومت کیلئے آئندہ بھی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ راہول گاندھی نے اپنے پہلے خطاب میں بی جے پی، آر ایس ایس اور دیگر فرقہ پرست تنظیموں کو جس طرح بے نقاب کیا وہ انڈیا الائینس کی حلیف جماعتوں کے علاوہ بی جے پی کی حلیف پارٹیوں میں موضوع بحث بن چکا ہے۔ راہول گاندھی کے حارحانہ موقف سے بی جے پی کی بوکھلاہٹ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لوک سبھا میں راہول گاندھی نے اگرچہ مائیک میں اپنی تقریر کی لیکن لوک سبھا کے ریکارڈ سے تقریر کے اہم حصوں کو حذف کردیا گیا۔ حکومت نے اسپیکر اوم برلا پر دباؤ بناتے ہوئے فرقہ پرست طاقتوں کے بارے میں راہول گاندھی کے ریمارکس کو ریکارڈ میں شامل نہیں کیا۔ امبانی اور اڈانی سے متعلق راہول گاندھی کے بیان، اگنی ویر اسکیم، اقلیتوں کے ساتھ ملک میں مظالم، تحفظات کی شرح میں اضافہ اور دیگر موضوعات پر راہول گاندھی کی تقریر کے حصوں کو ریکارڈ میں شامل نہیں کیا گیا۔راہول گاندھی کی تقریر کے اہم حصوں کو حذف کرنے پر سوشیل میڈیا میں عوام نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور اسے مودی حکومت کے ڈکٹیٹر انداز حکومت سے تعبیر کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ راہول گاندھی کو نشانہ بناتے ہوئے بی جے پی کے وزراء اور ارکان نے جو تقاریر کی تھیں انہیں من و عن ریکارڈ میں شامل رکھا گیا ہے۔ قائد اپوزیشن کے طور پر راہول گاندھی نے اسپیکر اوم برلا کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے اپنا اعتراض درج کرایا ہے۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ انوراگ ٹھاکر کی مکمل تقریر کو ریکارڈ میں رکھا گیا جبکہ انہوں نے تقریر میں کانگریس اور راہول گاندھی پر الزامات عائد کئے۔ بتایا جاتا ہے کہ راہول گاندھی کے پہلے جارحانہ تیور کے مظاہرہ نے بی جے پی کو لوک سبھا میں عملاً تنہا کردیا ہے۔ راہول گاندھی کی تقریر کے دوران مرکزی وزراء اور خود وزیر اعظم نے مداخلت کرتے ہوئے وضاحت کی کوشش کی تھی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ این ڈی اے کی کسی بھی اہم حلیف جماعت نے راہول گاندھی کی تقریر کو نشانہ نہیں بنایا۔ اطلاعات کے مطابق بی جے پی نے حلیف جماعتوں سے ربط قائم کرتے ہوئے راہول گاندھی کے ریمارکس کے خلاف بیان دینے کی خواہش کی لیکن کسی بھی حلیف پارٹی نے اتفاق نہیں کیا۔ تلگودیشم ، جنتا دل یونائٹیڈ اور دیگر اہم حلیف پارٹیوں کے رویہ سے خود بی جے پی حیرت میں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بی جے پی کی حلیف پارٹیوں کا احساس ہے کہ مضبوط اپوزیشن ان کے حق میں مددگار ثابت ہوگی کیونکہ اپنی ریاستوں کے مسائل کیلئے مودی حکومت پر دباؤ بنانے میں مدد ملے گی۔ راہول گاندھی نے ایک طرف بی جے پی کو لاجواب کردیا ہے تو دوسری طرف بی جے پی کی حلیف جماعتوں کو بھی اپنی صلاحیتوں کا معترف بنالیا ہے۔ راہول گاندھی کی لوک سبھا تقریر کی مکمل تقریر اور اس کے مخصوص حصے سوشیل میڈیا میں تیزی سے وائرل ہوگئے اور لاکھوں کی تعداد میں عوام نے نہ صرف مشاہدہ کیا بلکہ راہول گاندھی کی بے باکی اور غیر معمولی قائدانہ صلاحیتوں کی تعریف کی۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے مختلف حصوں سے سوشیل میڈیا پر راہول گاندھی کی تائید میں تبصرے کئے جارہے ہیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ راہول گاندھی نے اپنی پہلی تقریر کے ذریعہ یہ ثابت کردیا ہے کہ ملک میں وزارت عظمیٰ کیلئے نریندر مودی کا متبادل موجود ہے۔ گذشتہ دو میعادوں میں بی جے پی نے راہول گاندھی کی صلاحیتوں پر سوال اٹھائے تھے لیکن قائد اپوزیشن کے طور پر ان کا پہلا مظاہرہ ناقدین کو لاجواب کرنے کا سبب بنا ہے۔ پارلیمنٹ کے سینئر ترین ارکان کی رائے تھی کہ راہول گاندھی گذشتہ 10 برسوں میں عوام کے درمیان رہ کر اور بی جے پی کی تنقیدوں کا سامنا کرتے ہوئے ناقابل چیلنج طاقت بن چکے ہیں۔ بی جے پی کو بھی امید نہیں تھی کہ راہول گاندھی کا لوک سبھا میں مظاہرہ اس قدر جارحانہ اور ہر مسئلہ پر وسیع تر نظر رکھنے والا ثابت ہوگا۔راہول گاندھی نے عدم تشدد سے متعلق اسلام اور دیگر مذاہب کی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے وسیع تر مطالعہ کا ثبوت دیا ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر راہول گاندھی کا مظاہرہ اسی طرح جاری رہا تو این ڈی اے کی مخلوط حکومت کیلئے پانچ سال کی تکمیل آسان نہیں رہے گی۔1