راہول گاندھی کا دورہ تلنگانہ

   

کل تو سب تھے کارواں کے ساتھ ساتھ
آج کوئی راہ دکھلاتا نہیں
کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی تلنگانہ کے دورہ پر ہیں۔ ریاست میں کانگریس کی کمزور حالت کو مستحکم بنانے کی کوششوں کے دوران راہول گاندھی نے یہ دورہ کیا ہے ۔ وہ ورنگل میں کسانوں کے جلسہ عام سے خطاب کرچکے ہیں۔ وہ کانگریس قائدین سے مشاورت بھی کریں گے ۔ گذشتہ مہینے کانگریس قائدین کو دہلی طلب کرتے ہوئے راہول گاندھی نے ان کے آپسی اور داخلی اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی ۔ اس کے بعد سے پارٹی قائدین میں کچھ جوش و جذبہ دکھائی دے رہا ہے ۔ وہ سرگرمی سے راہول گاندھی کے دورہ کیلئے حرکت میں آگئے تھے تاہم حکومت کی جانب سے راہول گاندھی کے پروگرامس اور شیڈول کو منظوری دینے سے گریز کرتے ہوئے سیاسی کھیل بھی شروع ہوچکا ہے ۔ پردیش کانگریس قائدین نے راہول گاندھی کو شہر میں چنچل گوڑہ جیل لیجانے اور محروس کانگریس قائدین سے ملاقات کروانے کا پروگرام بنایا تھا ۔ اس کے علاوہ راہول گاندھی کو عثمانیہ یونیورسٹی لیجانے کا بھی پروگرام تھا ۔ حکام نے ان دونوں ہی پروگرامس کی اجازت نہیں دی ہے ۔ پارٹی کو عدالت سے بھی کوئی راحت نہیں مل سکی ۔ کانگریس قائدین نے دونوں ہی پروگرامس کیلئے قبل از وقت اجاز ت طلب کی تھی لیکن اجازت نہیں دی گئی ۔ اس کے علاوہ راہول گاندھی کے دورہ پر کانگریس اور ٹی آر ایس کے مابین لفظی تکرار بھی شروع ہوچکی ہے ۔ دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر نشانہ لگاتے ہوئے بیان بازیاں کر رہی ہیں۔ راہول گاندھی کے دورہ کے پروگرام سے قبل سیاسی ماحول صرف بی جے پی اور ٹی آر ایس کے درمیان گرم ہوگیا تھا اور ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیاں ہو رہی تھیں۔ تاہم کانگریس بھی اب بیان بازیوں کا حصہ بن گئی ہے ۔ راہول گاندھی کے دورہ پر ٹی آر ایس قائدین کی جانب سے ہی تنقیدوں کا آغاز کیا گیا ۔ ان کے پروگرامس کی اجازت نہ دیتے ہوئے کانگریس کو موقع دیا گیا ۔ عوام میں بھی اس کا اثر دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ اس طرح ٹی آر ایس کی تنقیدوں سے کانگریس کو موضوع بحث بنے رہنے کا ایک اچھا موقع ہاتھ آگیا ہے اور وہ بھی حکومت پر تنقیدیں کر رہی ہے ۔
جہاں تک راہول گاندھی کے دورہ کا سوال ہے اس سے کانگریس کو کتنا فائدہ ہوگا یا پارٹی قائدین میں اختلافات کس حد تک ختم ہونگے اور وہ کتنی شدت کے ساتھ عوام سے رجوع ہونگے فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔ تاہم یہ ضرور کہا جا رہا ہے کہ انہیں عثمانیہ یونیورسٹی کے دورہ کی اجازت سے انکار در اصل حکومت کی انا پرستی کا نتیجہ ہے ۔ عثمانیہ یونیورسٹی تلنگانہ احتجاج کا مرکز رہی ہے ۔ اسی جامعہ کے طلبا کی شمولیت سے احتجاج کو تقویت اور استحکام ملا تھا ۔ تلنگانہ کی تشکیل کے بعد سے اب تک چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کا یونیورسٹی میں خیر مقدم یا استقبال نہیں ہوا ہے ۔ اسی بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے یونیورسٹی کی جانب سے راہول گاندھی کو بھی دورہ کی اجازت نہیں دی گئی ہے ۔ راہول گاندھی کے دورہ کے تعلق سے کم از کم عثمانیہ یونیورسٹی کے طلبا گوشوں میں جوش و خروش دیکھا جا رہا تھا ۔ اس کے کیا سیاسی اثرات ہوسکتے تھے اس کا اندازہ تو نہیں لگایا جاسکتا لیکن کانگریس کی طلبا تنظیم میں ضرور جوش پیدا ہوگیا تھا اور وہ زیادہ متحرک ہوگئی تھی ۔ جب راہول گاندھی کو دورہ کی اجازت نہیں دی گئی تو یہ مسئلہ ایک سیاسی رنگ اختیار کرگیا اور کانگریس و ٹی آر ایس کے درمیان لفظی تکرار شروع ہوگئی ۔ اب راہول گاندھی کو چنچل گوڑہ جیل کا دورہ کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی جہاں وہ کانگریس کے محروس کارکنوں سے ملاقات کرنے کا منصوبہ رکھتے تھے ۔ حالانکہ راست حکومت کو اس کیلئے ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن حکومت کا رول مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا ۔
راہول گاندھی کے دورہ تلنگانہ کا جو وقت ہے وہ سیاسی اعتبار سے اہمیت کا حامل ضرور ہے۔ ریاست میں کانگریس اپنے استحکام کیلئے جدوجہد کر رہی ہے ۔ ریونت ریڈی صدارت سنبھالنے کے بعد کچھ حرکت ضرور پیدا ہوئی ہے لیکن درمیان میں بی جے پی نے بھی اپنے تیور جارحانہ کرلئے تھے ۔ یہ قیاس آرائیاں بھی ہو رہی ہیں کہ ریاست میں وسط مدتی انتخابات بھی کروائے جاسکتے ہیں۔ ان حالات میں کانگریس کی جانب سے حرکت میں آنا اور عوام سے رجوع ہونا فطری عمل ہے ۔ اس کوشش کا کانگریس کو کس حد تک فائدہ ہوگا یا پارٹی کس حد تک خود کو کامیاب کر پائے گی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔ اس کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے ۔