راہول گاندھی کا ذمہ دارانہ موقف

   

اُٹھ کے اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
کانگریس قائد ولوک سبھا میں قائد اپوزیشن راہول گاندھی ملک کو درپیش تمام مسائل پر اپنی پارٹی کی غلطیوں کا اعتراف کرنے اور انتہائی ذمہ دارانہ موقف اختیار کرنے کیلئے جانے جاتے ہیں۔ ماضی میں بھی انہوں نے کانگریس پارٹی کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان غلطیوں پر افسوس کا اظہار بھی کیا ہے اور آئندہ ایسی غلطیوں کو نہ دہرانے کا بھی عزم ظاہر کیا ہے ۔ راہول گاندھی گذشتہ مہینے امریکہ کے دورے پر گئے تھے ۔ وہاں ایک یونیورسٹی میں طلباء و طالبات کے ساتھ ان کا سشن منعقد ہوا ۔ اس میںسوال و جواب کا بھی موقع دیا گیا تھا ۔ ایک سکھ طالب علم نے راہول گاندھی سے 1984 کے آپریشن بلیو اسٹار اور مخالف سکھ فسادات کے تعلق سے سوال کیا گیا ۔ راہول گاندھی پر سکھ برادری میں بی جے پی کے تعلق سے خوف پیدا کرنے کا الزام بھی عائد کیا تھا ۔راہول گاندھی نے اس مسئلہ پر برہمی یا ناراضگی کا اظہار کرنے یا پھر بات کو گھما پھرا کر پیش کرنے سے گریز کیا ۔ انہوں نے راست جواب دیتے ہوئے اپنے واضح موقف کا اظہار کیا ۔ راہول گاندھی نے سکھ طالب علم کو جواب دیا کہ یسی کئی غلطیاں کانگریس پارٹی کی جانب سے کی گئی ہیں جب وہ پارٹی کا یا سیاست کا حصہ نہیں تھے ۔ ان کے خیال میں جو کارروائیاں کی گئی تھیں وہ درست نہیں تھیں۔ اس کے علاوہ راہول گاندھی نے یہ بھی واضح کردیا کہ ان کے خیال میں کوئی بھی بات سکھ برادری کو خوفزدہ نہیںکرسکتی ۔ راہول گاندھی کا یہ جواب انتہائی نپا تلا تھا ۔ انہوں نے اپنی پارٹی کی غلطیوں کا اعتراف کرنے میں کسی بخل سے کام نہیں لیا ۔ یہ حقیقت ہے کہ جس وقت کے تعلق سے یہ سوال کیا گیا تھا اس وقت راہول گاندھی نہ سیاست میں تھے اور نہ ہی کانگریس پارٹی میں تھے ۔ یہ درست ہے کہ راہول گاندھی اب کانگریس پارٹی کے ایک ذمہ دار لیڈر ہیں۔ وہ پارٹی کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ ایسے میں وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے راہول گاندھی نے پارٹی کی غلطی کا اعتراف بھی کیا ہے اور اس پرا فسوس کا اظہار بھی کیا گیا ہے ۔ یہ ہندوستانی سیاست کیلئے ایک مثال ہوسکتی ہے کیونکہ آج کے دور میں کوئی بھی اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے ۔
ہندوستانی سیاست کی یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سیاسی قائدین اور سیاسی جماعتیں غلطیاں کرتی ہیں اور ان کو بعد میں تسلیم کرنے کی بجائے ان کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ انہیں درست ٹہرانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے ۔ بات کو گھما پھرا کر توجہ ہٹائی جاتی ہے اور اصل مسئلہ کو محو کردیا جاتا ہے ۔ کوئی بھی لیڈر یا جماعت ایسی نہیں ہے جو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرسکے ۔ کوئی بھی اپنی غلطیوں پرپشیمانی کا اظہار بھی نہیں کرتا ۔ اپنے آپ کو درست ثابت کرنے اور ظاہر کرنے کیلئے ہر ممکن جدوجہد کی جاتی ہے ۔ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے اور مخالفین کو نشانہ بنانے یں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ۔ غلطیوں کا جواز پیش کرنے کیلئے بھی نت نئے بہانے اختیار کئے جاتے ہیں۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس کا سدباب ہونا چاہئے ۔ یہ درست ہے کہ ہر سیاسی جماعت یا قائد سے ماضی میں غلطیاں ہوئی ہیں اور آئندہ بھی ہوسکتی ہیں۔ ان کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو سدھارنے کی کوشش کرنا زیادہ بہتر طریقہ کار ہوسکتا ہے ۔ تاہم اس طریقہ کار کو اختیار کرنے کی بجائے اس کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہ وسیع القلبی نہیں ہوسکتی جبکہ سیاست اور عوامی زندگی میںکسی کو بھی وسیع الذہن یا وسیع القلب ہونا بہت زیادہ ضروری ہے ۔ وسیع النظری سے کام کرتے ہوئے ہی عوام یا ملک کی بہتر خدمات انجام دی جاسکتی ہیں۔ خود کو درست ثابت کرنے کے ہتھکنڈے اختیار کرنا منفی سوچ کی علامت ہی ہوسکتی ہے اور یہی آج کل عام ہوگئی ہے ۔
جس طرح سے راہول گاندھی نے سکھ برادری سے معذرت خواہی کی ہے یا افسوس کا اظہار کیا ہے اس سے ان کی وسیع النظری کا پتہ چلتا ہے ۔ اس کے ذریعہ راہول گاندھی نے ماضی کے غلطیوں کی پشیمانی کو کم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جہاں تک سکھ برادری کا سوال ہے تو راہول گاندھی کے اس جواب کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا ان کی اپنی مرضی کی بات ہے لیکن ایک بہتر اور واضح موقف رکھنے والے سیاستدان کے طور پر راہول گاندھی کی شبیہہ اس سے بہتر ہوئی ہے ۔ اس طرح کی مثالیں ہندوستان کی سیاست میں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ ایسی سوچ اور ایسے سیاسی حوصلے کو ملک میں مزید فروغ دئے جانے کی ضرورت ہے ۔