راہول گاندھی کا صدام حسین سے تقابل

   

بی جے پی قائدین کی جانب سے بے لگام تبصرے عام بات ہیں۔ پارٹی کے چھوٹے اور بڑے اور سینئر قائدین کی جانب سے انتہائی بیہودہ ریمارکس کرتے ہوئے سرخیاںبٹورنے کی کوششیںکی جاتی ہیںاور یہ کوئی خاص بات نہیںرہ گئی ہے ۔ کبھی کسی لیڈر کے خلاف بیہودہ ریمارکس کئے جاتے ہیں تو کبھی کسی برادری کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ کبھی کسی خاتون کی ہتک کی جاتی ہے تو کبھی کسی جماعت کے تعلق سے ناشائستہ زبان استعمال کی جاتی ہے۔ غرض یہ کہ مخالفین کو نشانہ بناتے ہوئے اخلاق و اقدار کو پامال کرنا بی جے پی قائدین کا وطیرہ بن چکا ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان کی یہ بیمار ذہنیت ختم ہونے یا تھمنے کا نام نہیںلے رہی ہے اور یہ سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے ۔ اس کے علاوہ زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ پارٹی کے ذمہ دار اورسینئرقائدین کی جانب سے بھی ایسی زبان استعمال کرنے والوںکو نہ روکا جاتا ہے ۔ نہ ان کی سرزنش کی جاتی ہے اور نہ ہی ان کے خلافکوئی کارروائی کی جاتی ہے ۔ بسا اوقات جب عوامی رد عمل توقعات سے زیادہ ہوتا ہے تو زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاتا ہے کہ پارٹی خود کو اس لیڈر یا اس بیان سے الگ تھلگ کرلیتی ہے اور اس طرح کے ریمارکس کو شخصی قرار دیتے ہوئے خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان قائدین اورکارکنوںکے حوصلے پست ہونے کی بجائے بلند ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی زبان درازیوں کا سلسلہ بھی بڑھتا جا رہا ہے ۔ اب آسام کے چیف منسٹر نے ایک ریمارک کرتے ہوئے راہول گاندھی کو نشانہ بنایا ہے ۔راہول گاندھی کو تنقید کا نشانہ بنانا ان کا سیاسی حق ہوسکتا ہے لیکن انہوںنے کہا کہ راہول گاندھی کا چہرہ صدام حسین جیسا ہوتا جا رہا ہے ۔ یہ تقابل انتہائی افسوسناک اور چیف منسٹر آسام ہیمنتا بسوا سرما کی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے ۔سب سے پہلے تو کسی بیرونی ملک کے مرحوم لیڈر یا صدر کے تعلق سے تبصرہ کرنے کا ہمیں کوئی اختیار نہیں ہے اور اگرکسی کی مثال لی جانی چاہئے تووہ بھی مثبت ہونی چاہئے ۔ کسی کو منفی تبصروںمیںگھیرنا ایک چیف منسٹر کیلئے کسی بھی حال میںمناسب یا موزوں نہیںکہا جاسکتا ۔ یہ منفی ذہنیت ہے ۔
راہول گاندھی ملک گیرسطح پر بھارت جوڑو یاترا کر رہے ہیں۔ وہ سماج کے مختلف طبقات سے ملاقات کرتے ہوئے نفرت کے ماحول کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سماج کے مختلف طبقات کے مابین جو دوریاں پیدا کردی گئی ہیں ان کو پاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس طرح کی کوششوں پر بی جے پی کو اعتراض ہے اور ہوسکتا ہے کہ اسی وجہ سے اس یاترا کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہو۔ بی جے پی ملک میںفرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کیلئے شہرت رکھتی ہے ۔ اس کے قائدین اور کارکنوںاورمرکزی وزراء تک کی جانب سے ناشائستہ زبان استعمال کی جاتی ہے اور اشتعال انگیز بیانات دئے جاتے ہیں۔ کسی کی کردارکشی کرناان کیلئے عام بات ہوگیا ہے ۔ راہول گاندھی سماج کے مختلف طبقات کے لوگوںسے ملتے ہوئے امن و آشتی اور بھائی چارہ کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیاسی اعتبارسے اس یاترا اور راہول گاندھی کی مخالفت کرنا بی جے پی کا حق ہوسکتا ہے ۔ اسے اختیار ہے کہ وہ اس کی مخالفت کرے لیکن سیاست اختلاف میں بھی اخلاقیات اور اقدار کو پامال نہیں کیا جانا چاہئے جس طرح اب کیا جا رہا ہے ۔ خاص طور پر چیف منسٹر آسام اپنی بے لگام زبان سے متنازعہ بیانات دینے میںشہرت رکھتے ہیںاور بی جے پی قیادت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرتے ہوئے اور خاموشی اختیار کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی ہی کرتی نظر آتی ہے ۔ یہ پارٹی کی حکمت عملی بھی ہوسکتی ہے تاکہ ایک مخصوص ذہنیت کے حامل گوشہ کو مطمئن رکھا جاسکے ۔
جہاں تک صدام حسین کی بات ہے ہندوستان کی سیاست سے ان کا کوئی تعلق نہیںہے ۔ وہ ایک مرحوم لیڈر ہیں۔ ساری دنیا میںانہیں مقبولیت حاصل تھی ۔ امریکہ اور اس کے حواری انہیںپسند نہ کرتے ہوں لیکن صدام حسین کے دور حکومت میںہندوستان اور عراق کے مابین تعلقات بھی خوشگوار رہے تھے ۔ عراق ‘ ہندوستان کا اچھا دوست ملک رہا ہے ۔ ایسے میں منفی ذہنیت کے ساتھ عراق کے مرحوم صدر کی مثال دینا اور اس کے ذریعہ کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنا انتہائی مناسب کوشش ہے ۔ ہیمنتا بسوا شرما اور بی جے پی کے دوسرے قائدین کو اس طرح کی حرکتوں سے باز رہنے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی مخالفت کے نام پر اخلاقیات اور اقدار کو پامال کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیںدی جاسکتی ۔