راہول گاندھی کو سزا

   

کانگریس لیڈر راہول گاندھی کو ہتک عزت مقدمہ میںسزا بھی سنا دی گئی اور ان کی لوک سبھا کی رکنیت کو بھی ختم کردیا گیا ۔ یہ نئے ہندوستان میں ہونے والی تیز رفتار ترین کارروائی ہے ۔ ویسے بھی ملک میں ہر گوشے کی جانب سے الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ اپوزیشن کی آواز کو دبانے کیلئے حکومت ہر ممکن کارروائی کر رہی ہے ۔ حکومت کی جانب سے ہر طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے قانون کی پاسداری کے نام پر قانون کی دھجیاںاڑائی جا رہی ہیں اور اپوزیشن کی آواز کو دبانے اور کچلنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیاجا رہا ہے ۔ راہول گاندھی ویسے بھی ہندوستان میں وہ واحد لیڈر بن کر ابھر رہے ہیں جو آر ایس ایس اور بی جے پی کے خلاف تنہا جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ اس کے عواقب کی فکر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ راہول گاندھی کا کہنا ہے کہ وہ ہندوستان کیلئے لڑ رہے ہیں اور اس کیلئے کوئی بھی قیمت چکانے کو تیار ہیں۔ راہول گاندھی کو سیاسی مخالفت کی بناء پر بی جے پی کی جانب سے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور انہیں ہر مرحلہ پر مذاق کا موضوع بھی بنانے سے گریز نہیں کیا گیا ۔ بی جے پی کو ابتداء سے یہ اندازہ ہے کہ اس کے بنیادی مسائل پر آواز اٹھانے والا ملک بھر میں کوئی واحد لیڈر ہے تو وہ راہول گاندھی ہے ۔ وہ بی جے پی کی طاقت یا آر ایس ایس کی تنظیمی صلاحیتوں سے خوفزدہ ہونے بھی تیار نہیں ہیں ۔وہ مقدمات کا سامنا بھی کر رہے ہیں۔ وہ ایسے مسائل پر عوام کی توجہ مبذول کروا رہے ہیں جس جانب کوئی بھی توجہ کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ دوسرے اپوزیشن قائدین کا جہاں تک سوال ہے وہ بھی حکومت کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں لیکن پوری شدت کے ساتھ حکومت سے ٹکرانے کاجذبہ بہت کم قائدین میں دکھائی دیتا ہے ۔ راہول گاندھی کو بی جے پی کے خلاف پوری شدت سے مہم چلانے کی قیمت بھی چکانی پڑی ہے ۔ کانگریس میں شامل کئی قائدین کو بی جے پی نے اپنی طاقت اور لالچ سے خرید بھی لیا ہے ۔ کئی قائدین تو بی جے پی میں شامل بھی ہوگئے جو بی جے پی میں شامل نہیں ہوئے وہ علیحدہ جماعتیں قائم کرتے ہوئے کانگریس ہی کے خلاف سرگرم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
جہاں تک راہول گاندھی کے خلاف عدالتی سزاء کا سوال ہے تو اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مقدمات پر بھی سیاسی اثرات دکھائی دینے لگے ہیں۔ عدالتوں پر اثر انداز ہونے کی بھی حکومتوں کی جانب سے کوشش کی جا رہی ہے ۔ راہول گاندھی کو جس طرح سے دو سال کیلئے سزا سنائی گئی اور جس مقدمہ میں سنائی گئی وہ قابل غور ہے ۔ جس طرح کے بیانات بی جے پی اوراس کے قائدین کی جانب سے دئے جاتے ہیں اور جس طرح سے اشتعال انگیزیاں کی جاتی ہیں وہ سارے ملک پر عیاںہے ۔ جو جرائم پیشہ ریکارڈ رکھتے ہیں انہیں بی جے پی میں وزارتیں دی جاتی ہیں۔ انہیں لوک سبھا اور اسمبلی کی رکنیت کیلئے منتخب کروایا جاتا ہے ۔ انہیں دوسرے عہدوں سے نوازا جاتا ہے ۔ ان کی سماجی حیثیت میں اضافہ کرتے ہوئے ایک طرح سے انہیں مقدمات سے محفوظ رکھنے کی بات کی جاتی ہے ۔ عصمت ریزی کیس میں سزائیں پانے والوں کو سنسکاری قرار دیا جاتا ہے ۔ دہشت گردی کے مقدمات کا سامنا کرنے والوں کو لوک سبھا کی رکنیت کیلئے منتخب کروایا جاتا ہے ۔ کرپشن اور بدعنوانیوں کے الزامات کا سامنا کرنے والوں کی وزارتیں بحال کی جاتی ہیں۔ دوسری جماعتوں سے بی جے پی میں شامل ہونے والے قادین کے خلاف مقدمات کو برفدان کی نظر کردیا جاتا ہے اور نئے مقدمات درج نہیں کئے جاتے ۔ یہ سارا کچھ نئے ہندوستان میں ہو رہا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہم جمہوریت سے آمرانہ دور کی طرف واپسی کر رہے ہیں۔
اپوزیشن جماعتیں ہندوستانی جمہوریت کا اہم حصہ رہی ہیں۔ حکومتوں کی ناکامیوں اور ناقص پالیسیوں کو اجاگر کرتے ہوئے عوام کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش ہمیشہ اپوزیشن نے کی ہے ۔ اپوزیشن کی آواز کو کچلتے ہوئے ملک میں عوامی مسائل پر اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ راہول گاندھی کی ایوان کی رکنیت کو ختم کرنا آمرانہ طرز کی کارروائی ہی ہے جبکہ عدالت سے سزا کے خلاف اپیل کیلئے ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے ۔ اگر عدالت بالا سے اس سزا پر روک لگائی جائے گی تو یہ ساری کارروائی الٹ جائیگی ۔ قبل از وقت حرکت کے ذریعہ حقیقی سیاسی عزائم کا اظہار کیا گیا ہے جو منفی سوچ کی عکاسی ہے۔