راہول گاندھی کو شنکر آچاریہ کی تائید

   

مسکرائے پھول، نغمے جاگ اُٹھے، بدلی فضا
زندگی کے جھوم جانے کا مقام آہی گیا
قائدا پوزیشن راہول گاندھی نے جب لوک سبھا میں تقریر کرتے ہوئے بی جے پی اور آر ایس ایس کو نشانہ بنایا اور یہ دعوی کیا کہ ہندو کا مطلب صرف مودی نہیں ہے اور ہندوتوا مطلب صرف بی جے پی یا آر ایس ایس نہیں ہے ۔ انہوںنے مذہب کا نام اور سہرا لیتے ہوئے تشدد برپا کرنے والوںکو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور یہ دعوی کیا تھا کہ دنیا کے کسی بھی مذہب میں تشدد اور نفرت کی تعلیم نہیں دی گئی ہے لیکن بی جے پی اور سنگھ پریوار کی جانب سے مذہب کے نام پر نفرت پھیلائی جا رہی ہے اور تشدد برپا کیا جا رہا ہے ۔ بی جے پی اور خود وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے حسب روایت ایک بار پھر مذہب کا سہارا لیتے ہوئے سارے ہندووںکو اکسانے کی کوشش کی تھی اور یہ کہا تھا کہ راہول گاندھی نے سارے ہندو مذہب کی توہین یا ہتک کی ہے ۔ بی جے پی حالانکہ مذہب کا استحصال کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش میںکامیاب نہیںہوئی تھی لیکن اب ہندو مذہب کی ایک بڑی شخصیت اترکھنڈ کے شنکر آچاریہ نے راہول گاندھی کے بیان کی تائید کردی ہے ۔ شنکر آچاریہ نے کہا کہ راہول گاندھی نے جو بات کہی ہے وہ بالکل درست ہے اور راہول گاندھی نے ایک وسیع پس منظر میں یہ بات کہی تھی لیکن بی جے پی اور اس کے قائدین اس کو توڑ مروڑ کر کچھ حصوں میںوائرل کر رہے ہیںجو درست نہیں ہے ۔ راہول گاندھی کے موقف کی ایک غیر متوقع گوشہ سے تائید ہوئی ہے اور بی جے پی اس پر کچھ بھی کہنے سے قاصر ہے کیونکہ بی جے پی کی اپنی ہی الگ منطق ہوتی ہے اور بی جے پی قائدین اپنے سیاسی اور ذاتی فائدے کیلئے مذہبی شخصیتوں کی ہتک کرنے سے بھی باز نہیںآتے ۔ ماضی میں بھی جب کچھ مذہبی قائدین نے ایودھیا میںغیر مکمل رام مندر کے افتتاح کی مخالفت کی تھی تو ان مذہبی شخصیتوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور ان کی مذہبی حیثیت کو ہی چیلنج کردیا گیا تھا ۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب بی جے پی نے کسی کے بھی بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور عوام کے مذہبی جذبات کو اشتعال دلاتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی ۔
اب ملک کے حالات میں تبدیلی پیدا ہوئی ہے ۔ لوگ اب بی جے پی کے بہکاوے میںآنے کی بجائے اپنے مسائل کے تعلق سے غور کرنے لگے ہیں۔ انہیںاپنے مسائل کی یکسوئی اور ان کے حل سے دلچسپی پیدا ہوگئی ہے ۔ وہ بی جے پی کے بہکاوے میں آتے ہوئے اپوزیشن کی بات کو یکسر مسترد کرنے تیار نہیں ہیں ۔ا ب وہ واپوزیشن کی باتوں کو بھی دھیان اور دلچسپی سے سننے لگے ہیںاور حکومت اورا پوزیشن کے موقف کا تقابل کرنے لگے ہیں۔ انہیںیہ اندازہ ہونے لگا ہے کہ کون ان کے مسائل کی یکسوئی کی بات کر رہا ہے اور کون ہے جو محض زبانی جملے بازیوں کے ذریعہ اور مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہوئے اپنی سیاسی روٹیاں سینک رہے ہیں۔ ایسے میں اب بی جے پی راہول گاندھی کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائی ہے کیونکہ لوگ بی جے پی کی باتوں پرا ب آنکھ بند کرکے یقین کرنے کی بجائے اس کی سچائی کا جائزہ لینے لگے ہیں۔ بات کی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور پھر کسی نتیجہ پر پہونچ رہے ہیں۔ ایسے میں شنکر آچاریہ کی جانب سے راہول گاندھی کے موقف کی تائید نے یہ بات بالکل واضح کردی ہے کہ قائد اپوزیشن نے لوک سبھا میں جو کچھ بھی کہا تھا وہ بالکل درست تھا اور انہوں نے سارے ہندو مذہب کو نشانہ نہیں بنایا تھا بلکہ مذہب کا استحصال کرنے والوں کی مخالفت کی تھی اور ان کو نشانہ بنایا تھا ۔ ان بات کو اب تسلیم کیا جانے لگا ہے ۔
جہاں تک حکومت کی بات ہے تو یہ واضح ہوچکا ہے کہ اب راہول گاندھی کو حکومت محض ٹرول آرمی کے ذریعہ قابو کرنے کے موقف میں نہیں رہ گئی ہے ۔ر اہول گاندھی کو قائد اپوزیشن کا دستوری عہدہ حاصل ہوا ہے اور حکومت ان کے سوالات کے جواب دینے کیلئے پابند ہے ۔ حکومت ان کے بیانات اور حق بیانی پر ٹرول آرمی کو کام پر لگاتے ہوئے خود سیاسی فائدہ حاصل کرنے پر اب اکتفاء نہیںکرسکتی ۔ حکومت کو اپنے موقف کا اور حقیقت کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ مذہبی جذبات کے استحصال کا سلسلہ بند کیا جانا چاہئے اور ہر بات کو اس کے تناظر میں سمجھتے ہوئے حقیقی معنی اخذ کرنے کی ضرورت ہے ۔