راہول گاندھی کی نیائے یاترا

   

انصاف سے بڑھ کر نہیں کوئی نعمت
مگر شرط یہ ہے کہ دنیا اسے مانے
کانگریس لیڈر راہول گاندھی اپنی بھارت جوڑو یاترا کی گذشتہ سال تکمیل کے بعد اس بار بھارت نیائے یاترا کا اہتمام کرنے والے ہیں۔ یہ یاترا منی پور سے شروع ہو کر ممبئی تک کا سفر طئے کرے گی ۔ کئی ریاستوں اور اضلاع کا احاطہ کرتے ہوئے 6000 کیلومیٹر سے زائد کا سفر طئے کیا جائیگا ۔ راہول گاندھی نے جب بھارت جوڑو یاترا کا اہتمام کیا تھا اس کو سارے ملک میں بہترین رد عمل حاصل ہوا تھا ۔ عوام نے اس سے خود کو جوڑنے کی ضرورت محسوس کی تھی اور اس کا حصہ بھی بنے تھے ۔ کئی اہم شخصیتوں نے بھی خود کو اس یاترا کا حصہ بنانا ضروری سمجھا تھا ۔ اس یاترا کے بعد کانگریس کو جنوبی ریاستوں کرناٹک اور تلنگانہ میں اقتدار حاصل ہوا ۔ ان ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے کامیابی حاصل کی اور اپنے طور پر اکثریت حاصل کرتے ہوئے ان ریاستوں میں حکومت بنائی ہے ۔ تاہم شمالی ہند کی ہندی بولنے والی ریاستوں راجستھان ‘ مدھیہ پردیش کے علاوہ چھتیس گڑھ میں پارٹی کو کامیابی نہیں ملی اور راجستھان و چھتیس گڑھ کا اقتدار پارٹی کے ہاتھ سے چلا گیا ۔ یہ ایک الگ پہلو ہے کہ چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں الٹ پھیر کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ کچھ مقدمات بھی درج کئے گئے ہیں۔ عدالتوں میں بھی اس کی سماعت ہو رہی ہے تاہم نتائج بی جے پی کے حق میں رہے ہیں۔ اب جبکہ ملک میں آئندہ پارلیمانی انتخابات کا وقت قریب آ پہونچا ہے ایسے میں کانگریس کو عوام سے جڑنے اور عوام کی تائید حاصل کرنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ لاحق ہوگئی ہے ۔ بی جے پی کی مسلسل کامیابیوں کا سفر روکنے کیلئے کانگریس کا عوام سے قریب ہونا ضروری ہے ۔ عوام کا کانگریس کی تائید کرنا ضروری ہے ۔ اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے شائد راہول گاندھی نے اب بھارت نیائے یاترا کا اہتمام کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ بھارت جوڑو یاترا کی طرح اس یاترا کو بھی زبردست عوامی تائید و حمایت ملے گی ۔ ان ریاستوں کا اس یاترا میں احاطہ کیا جائیگا جن کو بھارت جوڑو یاترا میں شامل نہیں کیا جاسکا تھا ۔
کانگریس پارٹی کے اس طرح کے پروگرامس اور یاتراؤں کو عوام کی تائید ضرور حاصل ہو رہی ہے ۔جہاں تک ووٹ حاصل کرنے کی بات ہے تو اس میں بھی کانگریس پارٹی بی جے پی سے زیادہ پیچھے نہیں ہے ۔ تاہم ان ووٹوں کو نشستوں میں تبدیل کرنے میں پارٹی کو تاحال وہ کامیابی نہیں مل پائی ہے جس کی پارٹی کو ضرورت ہے ۔ پارٹی کے پاس کیڈر کے جوش و خروش کا فقدان دکھائی دیتا ہے یا پھر ہندی پٹی کی ریاستوں میں کانگریس کے کارکنوں میں احساس کمتری بھی پیدا ہوگیا ہے ۔ اس کو دور کرنے کی ضرورت ہے ۔ جنوب میں کانگریس کا احیاء ہونے لگا ہے ۔ کیرالا میں پارٹی کا مستحکم موقف ہے ۔ کرناٹک اور تلنگانہ میں پارٹی کو اقتدار حاصل ہوچکا ہے ۔ ٹاملناڈو میں ڈی ایم کے ایک طاقتور جماعت ہے جو کانگریس سے اتحاد رکھتی ہے ۔ اب جنوب میں آندھرا پردیش میں کانگریس کے امکانات کو بہتر بنانے کی منصوبہ بندی بھی ہونے لگی ہے ۔ تاہم اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ شمالی ہند کی ہندی پٹی ریاستوں میں بی جے پی کی پیشرفت کو موثر ڈھنگ سے روکنے کی حکمت عملی بنائی جائے ۔ جو ووٹ پارٹی کو مل رہے ہیں ان کے تناسب میںمزید اضافہ کرتے ہوئے ان کو نشستوں میں تبدیل کرنے کا میکانزم پارٹی کیلئے ضروری ہوگیا ہے ۔ اسی طرح کی حکمت عملی کے ذریعہ بی جے پی کی انتخابی کامیابیوں کو روکا جاسکتا ہے ۔ محض یاترا کرتے ہوئے عوام میں ایک صورتحال پیدا کرنا لوک سبھا انتخابات میں کامیابی کی ضمانت نہیںہوسکتا ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ راہول گاندھی کانگریس کے انتخابی امکانات کو بہتر بنانے اور عوام کی تائید حاصل کرنے کی کوششوں میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں۔ ان کی کوششوں کے وہ نتائج حاصل ہونے ضروری ہیں جن کی پارٹی کو ضرورت ہے ۔ اس کیلئے در پردہ بھی سرگرمیوں کی ضرورت ہے ۔ بی جے پی کی حکمت عملی کا توڑ تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ عوام کی تائید حاصل کرنے کیلئے کانگریس کا خود کو مستحکم اور موثر ڈھنگ سے عوام میں پیش کرنا ضروری ہے ۔ پارٹی کے سینئر اور ذمہ دار قائدین کو اس بات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس پر پوری توجہ کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔