حافظ محمد ہاشم صدیقی
گزشتہ سے پیوستہ … آپؐ کے اخلاقِ کریمانہ پر یہ آیت نازل ہوئی : تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں متقی و پرہیزگارہو ، نسب و حسب کی کوئی حقیقت نہیں۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ ؓ فرماتے ہیں : ’’آپؐ اکثر طویل سکوت اختیار فرماتے تھے ، بلا ضرورت کلام نہ فرماتے۔ آپؐ کی گفتگو اور بیان بہت صاف ، واضح اور دوٹوک ہوتاتھا، نہ اس میں غیر ضروری طوالت ہوتی نہ زیادہ اختصار۔ آپؐ نرم مزاج و نرم گفتار تھے، درشت اور بے مروت نہ تھے۔ آپؐ کسی کی اہانت نہ کرتے اور نہ اپنے لئے اہانت پسند کرتے تھے۔ نعمت کی بڑی قدر کرتے اور اس کو بہت زیادہ جانتے تھے خواہ کتنی ہی قلیل ہو،نعمت کی برائی نہ فرماتے۔ دنیا اور دنیا سے متعلق جو چیز ہوتی اس پر آپؐ کوکبھی غصہ نہ آتا لیکن جب رب العالمین کے کسی حق کو پامال کیا جاتا تو اُسوقت آپؐ کے جلال کے سامنے کوئی چیز نہ ٹھہر سکتی تھی، یہاں تک کہ آپؐ اس کا بدلہ لے لیتے۔ آپؐ کو اپنی ذات کے لئے غصہ نہ آتا، نہ ہی اپنی ذات کیلئے انتقام لیتے تھے۔جب کسی کی طرف اشارہ فرماتے تو پورے ہاتھ کے ساتھ اشارہ فرماتے۔ غصہ اور ناگواری کی بات ہوتی تو روئے انور اس طرف سے پھیر لیتے اور اعراض فرما لیتے۔ خوش ہوتے تو نظریں جھکا لیتے۔ آپؐ کا ہنسنا زیادہ تر تبسم تھا جس سے صرف آپؐ کے دندانِ مبارک ،جو بارش کے اولوں کی طرح پاک شفاف تھے ، ظاہر ہوتے تھے۔‘‘
ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ مزید بیان کرتے ہیں: آپؐ خوددار اور باوقار اور شان و شوکت کے حامل تھے اور دوسروں کی نگاہ میں بھی نہایت پر شکوہ ، آپؐ کا روئے انور چودھویں رات کے چاند کی طرح دمکتا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ ہمہ وقت کشادہ رُو اور انبساط و بشاشت کے ساتھ رہتے تھے۔ بہت نرم اخلاق، نرم پہلو تھے۔ نہ سخت طبیعت کے تھے نہ سخت بات کہنے کے عادی ، نہ چلاکر بولنے والے نہ کسی کو عیب لگانے والے، نہ تنگ دل نہ بخیل۔تین باتوں سے آپؐ نے اپنے کو بالکل بچا کر رکھا : ایک جھگڑا، دوسرے تکبر اور تیسرے غیر ضروری اور لا یعنی کام۔ لوگوں کو بھی تین باتوں سے آپؐ نے بچارکھا تھا: نہ کسی کی برائی کرتے نہ اس کو عیب لگاتے تھے اور نہ اس کی کمزوریوں اور پوشیدہ باتوں کے پیچھے پڑتے تھے۔ آپؐ صرف وہ کلام فرماتے تھے جس پر ثواب کی امید ہوتی تھی۔ جب گفتگو فرماتے تو شرکائے مجلس ادب سے اس طرح سر جھکا لیتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ ان سب کے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو لباس و جمال و کمال سے آراستہ فرمایا تھااور آپؐ کو محبت و دلکشی اور رعب و ہیبت کا حسین و جمیل پیکر بنایا تھا۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میانہ قد تھے۔ میں نے آپؐ کو ایک مرتبہ سرخ قبا میں دیکھا ، اس سے اچھی کوئی چیز میں نے کبھی نہیں دیکھی ۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میانہ قد تھے ،طول کی طرف کسی قدر مائل، رنگ نہایت گورا،ریش مبارک کے بال سیاہ، دہانہ نہایت متناسب اور حسین، آنکھوں کی پلکیں دراز ، چوڑے شانے۔ آخر میں کہتے ہیں کہ میں نے آپؐ جیسا آپؐ کے پہلے یا آپؐ کے بعد کبھی نہیں دیکھا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ میں نے حریر و دیباج کو بھی آپ کے دست مبارک سے زیادہ نرم نہیں پایا۔ نہ آپ کی خوشبو سے بڑھ کر کوئی خوشبو سونگھی۔ اللہ کے رسول کے اخلاق و شمائل کا یہ ایک مختصر خاکہ ہے۔ آپ کی سیرت لکھنے کے لئے بڑے سے بڑے دفتر بھی کم پڑ جائیں گے۔
طَلْـعَ الْـبَدْرُ عَلَیْـَنامِنْ ثَنِیَّاتِ الْوِدَاعِ
وَجَب الشُّکْرُ عَلَیْنَا مَا دَعَا لِلّٰہِ دَاعِ
(وہ مثل ماہِ کامل ہم میں آئےثنیات الوداع کے راستے سے،اب ان کا شکر واجب ہم پہ ٹھہرے کہ داعی حق کی دعوت دینے آئے)
سیرت رسول اللہ اور ہماری ذمہ داری:
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تمام اہلِ ایمان آپ کی سیرت اورآپکی تعلیم پر عمل پیرا ہو کر نہ صرف اپنی دنیا و آخرت سنواریں بلکہ ساری دنیا کو بھی اس پیغام سے روشناس کرائیں۔ اسلام کی تبلیغ میں جہاں قرآن پاک ، کلامِ الٰہی و احادیث نبویؐ کا کردار ہے وہیں سیرت نبوی آپ کی عملی زندگی ، صحابہ کرام ، اولیاء اللہ کی زندگیاں اور ان کا اخلاق و کردار بھی اسلام کی تبلیغ کا ذریعہ بنا۔ ہم کو بھی اسلامی سفیر بن کر عملی زندگی سے دوسروں تک اسلام کا پیغام ِامن پہنچانے کی پوری کوشش کرنی ہوگی تبھی ہم بہترین امت کہلانے کے حقدار ہوں گے، تبھی ہم ساری دنیا سے دہشتگردی، انتہا پسندی اور ظلم و جبر کا خاتمہ کرنے کی پوزیشن میں آئیں گے۔
ہم سب ربیع الاول کے پیغامِ محمدیؐ کو اپنے سینے سے لگائیں۔ اپنا محاسبہ کریں ، جائزہ لیں کہ ہمارے اندر تعلیماتِ رسول اللہ کا عملی حصہ کتنا پایا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو عمل کی توفیقِ رفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔