ڈاکٹر قمر حسین انصاری
ریاض (سعودی عرب)کی رائل کلینک میں ہمارے ایک سینئر رفیق پاکستان کے ڈاکٹر فضل الرحمن تھے جو ایک عرصہ تک شاہ خالد بن عبدالعزیز کے شخصی معالج تھے ۔ وہ اکثر مجھ سے کہا کرتے ’’ہمارے پنجاب میں ایک مشہور مثل ہے : رشتہ دار وہ ہیں جو دور سے تو گرمی دیتے ہیں لیکن قریب سے جلادیتے ہیں ‘‘ ۔ مجھے مفتی اشرف علیؒ کا وہ مشہور شعر یاد آجاتا ؎
عجب سلگتی ہوئی لکڑیاں ہیں رشتہ دار
دور رہیں تو دھواں دیں اور ملیں تو جلنے لگیں
آج کے دور میں زیادہ تر لوگ رشتہ داروں سے (بالخصوص ) غریب سے کَنَّے کاٹتے ہیں اور اُن کو دیکھ کر اپنا راستہ بدل لیتے ہیں ۔
دوسری طرف رشتہ دار اپنے سے بہتر جاہ و مال میں رشتہ داروں سے جلن ، حسد اور کینہ رکھتے ہیں ۔ ہمیشہ اس فکر میں لگے رہتے ہیں کہ کس طرح اُن کا استحصال کیا جائے ۔ حالانکہ اُن سے زندگی بھر مستفید ہوتے رہتے ہیں ۔ نہ اُن کے لئے دُعا کرتے ہیں اور نہ اُن کے احسان مند۔ اس کے باوجود ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے مستحق رشتہ داروں کی ہرممکنہ مدد کرتے رہیں۔ اُن کی تعلیم پر زیادہ توجہ دیتے رہیں تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں اور اﷲ ہم سے راضی ہوجائے، کیونکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’اور قرابت داروں کے لئے اور رشتہ داروں کیلئے اُن کے حقوق کے ساتھ حُسنِ سلوک کرے ۔ یہ بات نہایت ضروری ہے ۔ یہ ثابت ہے ۔ متقی اور پرہیزگاروں پر اﷲ سے ڈرنے والوں پر ‘‘ ( سورۃ البقرہ۱۸)
قرآن مجید سے اﷲ کا حکم اور فرمان پڑھیئے ۔ ’’اور والدین کے ساتھ اور مانباپ کے ساتھ حُسن سلوک کرو اور قرابت داروں ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرو ، اچھی بات کرو ، نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ دیتے رہو ۔ پھر تم قول اور قرار کرکے پھر گئے سوائے چند کے ، تمہاری عادت ہے اس سے اعتراض کرو ‘‘ ۔ (سورۃ البقرہ ۸۲)
اﷲ تعالیٰ دوسروں کے بارے مںے فرماتا ہے : ’’اور ہمسایہ ، پڑوسی اور قرابت داروں سے بھی نیکی کرو اور اجنبی پڑوسی کے ساتھ بھی اور مسافروں کے ساتھ بھی نیکی کرو اور راستہ چلنے والوں کے ساتھ بھی اور جن کے تم مالک ہو ( جیسے نوکر ، باندی ، غلام ، تمام ماتحتین جو عمل کی جگہ کام کرتے ہیں اور تمہارے جانوروں کے ساتھ بھی اچھی طرح پیش آؤ ۔ ایسا شخص جو تکبر اور بڑائی کرتا ہو فخر کرتا ہو ، شیخی بگھارتا ہو ۔ اﷲ ایسے لوگوں کو بالکل دوست نہیں رکھتا اور قرابت دار آپس میں ایک دوسرے کے مستحق ہیں یہ حُکم ( رب کا فرمان ) کتاب الہیہ میں ہے بے شک اﷲ کو ہرچیز کا علم ہے اور وہ ہرچیز سے خبردار ہے ‘‘ ( سورۃ الانفال ۸۵)
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’یقینا تم میں ہر ایک اپنے بھائی کا آئینہ ہے ‘‘ (صحیح مسلم )
آپﷺ نے مزید فرمایا : ’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے وہ کسی مسلمان پر ظلم و زیادتی نہیں کرتا اُس کو ذلیل نہیں کرتا ۔ اُس کو حقیر نہیں سمجھتا اور ادنیٰ گرا ھوا شخص نہیں سمجھتا ‘‘ (صحیح مسلم )
آج کی اُمّتِ مسلمہ کے حالات کے لئے اس سے مناسبت کوئی حدیث نہیں ملے گی کہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت اُس قوم پر نازل نہ ہوگی جن کے لوگوں نے اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق کرلیا ہو ۔ رشتہ توڑ لیا ہو ‘‘ (البیھقی ) اور یہ کہ ’’جو کوئی چاہے کہ اُس کے رزق میں خیر و برکت ہو ، وسعت ہو ، اُس کی عمر دراز ہو تو اُس کی گذری ہوئی باتوں کو بھول کر اپنے رشتہ داروں سے اچھے تعلقات قائم کرے ، صلہ رحمی کرے۔ (متفق علیہ )
’’یقینا اﷲ تعالیٰ نہیں دیکھتا تمہاری شکل و صورت کو مگر تمہارے اعمال کو ( جو ساتھ لائے ہو ) (صحیح مسلم )
پوچھا گیا رسول اﷲ ﷺ سے ’’وہ کونسی بہترین چیز ہے جو انسان کو عطا کی گئی ہے ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا ’’اچھے اخلاق اور اچھے کردار ‘‘ ۔
پیارے نبی ﷺ نے ہمیں کیا پیاری دُعا سکھلائی : ……
یا اﷲ ! تو نے مجھے اچھی صورت و شکل کا بنایا ۔ پس مجھے اچھے اخلاق والا بنادے ۔ ( آمین )