محمد اسد علی ایڈوکیٹ
موجودہ دور میں ہر طرف دھوکہ بازی کا دور دورہ ہے جبکہ لڑکا اور لڑکی کے انتخاب میں عام طور پر لین دین اور ساتھ میں دی جانے والی جائیداد کو دیکھا جاتا ہے، دیکھا گیا ہیکہ عام طور پر رشتہ کے موقع پر بعض لوگ ایک دوسرے کے بارے میں غلط معلومات کے ذریعہ رشتہ طئے کرانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی مجبوری یا بے بسی کا استحصال کرتے ہیں اور اس قسم کے حالات کا ناجائزہ فائدہ اُٹھاتے ہوئے پیسہ بٹورنے کی کوشش کرتے ہیںایسے حالات کی ذمہ داری خود ہمارے معاشرہ پر عائد ہوتی ہے لیکن اس بات کو نظرانداز کردیا جاتا ہے جبراً جہیز اور پیسوں کی چمک دھمک ہماری بینائی کو شدید متاثر کتی ہے جس کی وجہ سے دینداری کو نظر انداز کرتے ہوئے چند روزہ زندگی کیلئے ازدواجی زندگی اور آخرت کو بھی شدید متاثر کرتے ہیں ۔ بعض والدین صرف لڑکے کی آمدنی اور اس کی جائیداد کو دیکھتے ہیں جبکہ لڑکے میں دینداری ، کردار ، حسن اخلاق وغیرہ کو نظرانداز کرایا جاتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہیکہ بعض اوقات حالات ایسے پیدا ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے لڑکی والوں کو افسوس کرنا پڑتا ہے کیونکہ دینداری نہیں بلکہ اس کی دولت اور اس کی جائیداد کا خیال کرتے ہیں اور لڑکی کا بیاہ کردیتے ہیں جس کی وجہ سے لڑکی کی زندگی شدید متاثر ہوتی ہے ۔ آج کے دور میں ایک دوسری غلط فہمی یہ ہیکہ لڑکی کے انتخاب کیلئے ان کے متعلق زیادہ تر ایسے لوگوں کو ترجیح دے رہے ہیں جو بیرونی ملک میں کام کررہے ہیں اس غلط فہمی کی وجہ سے کچھ لڑکیوں کی زندگی کو نقصان پہونچ رہا ہے کیونکہ کوئی یہ نہیں جانتا ہیکہ لڑکا بیرونی ملک میں کیا کام کرتا ہے ۔ اس معاملے میں لڑکے والے بھی غلط دعوی کرتے ہیں اور سچ کو پوشیدہ رکھتے ہیں ایسے ماحول میں بہت سی لڑکیاں شادی بیاہ کے بغیر بھی زندگی گزار رہی ہے اور لڑکا اندرونی ملک ملازم ہو یا کاروبار کرتا ہو ، لڑکا دیندار ہو ، تعلیم یافتہ ہو ، اس کے پاس اس کا خود کا ذاتی گھر نہ ہو اور وہ موٹر نشین نہ ہو تو ایسے رشتہ کو نظرانداز کردیا جاتا ہے ۔ اس کا افسوسناک پہلو یہ ہیکہ اگر لڑکا والدین کے ساتھ مقیم ہو تو یہ کہا جاتا ہیکہ ہمیں صرف وہی رشتہ منظورہے جہاں لڑکا اپنے والدین یا سرپرستوں کے ساتھ نہیں رہتا ہے یا اس بات پر اصرار کیا جاتا ہیکہ شادی کے بعد اپنے سرپرستوں یا والدین سے علحدہ ہوجائے شرم کی بات یہ ہیکہ اس قسم کا نظریہ قطعی طور پر غیر اخلاقی ہوتا ہے جبکہ اسلام میں ضعیف والدین کی خدمت کو بہت بڑی نعمت قرار دیا گیا ہے حتی کہ ایک دو اسلامی جنگ کے موقع پر ایک صحابی حضورﷺ کے پاس تشریف لے گئے جہاں حضورﷺ نے دریافت کیا کہ ان کے گھر میں کون ہے جس پر صحابی نے بڑے احترام کے ساتھ جواب دیا اے اللہ کے رسولؐ میرے گھر میں ضعیف ماں ہے جس پر حضورؐ نے انہیں لوٹا دیا اور کہا کہ وہ اپنی ماں کی خدمت کر کے حالانکہ اسلامی جنگ کے موقع پر تاہم اس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہیکہ اسلام میں والدین کی خدمت کو کس قدر اہم قرار دیا گیا ہے ، افسوس کی بات یہ ہیکہ آج کے دور میں شادی کے بعض لڑکیاں اپنے شوہر کو ان کے سرپرستوں یا متعلقین سے الگ کرنا چاہتی ہیں ۔ افسوس کی بات یہ ہیکہ جو والدین یا سرپرست اس کی پرورش کا ذریعہ ہوتے ہیں ان سے توڑ دیا جاتا ہے اور اس بات پر اصرار کیا جاتا ہیکہ لڑکا اپنے والدین ، بھائی اور بہنوں سے کوئی تعلق نہ رکھے اور ضعیف والدین کو کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ دیا جاتا ہے ایسی بہت سی مثالیں ہیں جس سے پتہ چلتا ہیکہ والدین کے ضعیف ہوجانے پر انہیں دربدر کی ٹھوکریں کھاے کیلئے چھوڑ دیا ہے ان حالات کی ذمہ داری اُن والدین اور لڑکیوں پر عائد ہوتی ہے جو اپنے شوہروں کو ان کے والدین ، بھائی بہنوں سے جُدا کرتے ہیں والدین ایسے لڑکیوں کو مل جل کر زندگی گزارنے کا سبق سکھائیں ورنہ مغربی ممالک کا رواج جہاں لعنتی نیوکلیئر فیملی کا رواج ہے ۔ اگر اسے اپنا جائے تو اس کا انجام بھی وہی ہوگا جو مغربی ممالک میں ہورہا ہے لہذا فریقین کے سرپرستوںکی ذمہ داری ہیکہ وہ اپنے بچوں کی اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت دے جس میں بزرگوں کی خدمت کو بہت بڑی نعمت قرار دیا گیا ہے افسوس کی بات یہ ہیکہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان کی لڑکی ڈاکٹر یا لکچرر ہے لہدا وہ کچن میں جانا بھی بُرا سمجھتی ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہیکہ اُسے اپنے پیشہ کے لحاظ سے کسی قسم کا پکوان نہیں آتا ہے اور نہ کوئی ایسا کام کرسکتی ہے جو ان کے وقار کے منافی ہو حالانکہ عورت کا سب سے بڑا زیور شوہر اور اس کے سرپرستوں یا متعلقین کی خدمت ہے لیکن کسی ہوٹل سے کھانا منگوانا ایک معمول بن گیا ہے جو مغربی تہذیب کی دوسری بڑی لعنت ہے باہر کے کھانے سے نہ صرف صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ لڑکی کی صلاحیتیں بھی متاثر ہوتی ہے کیونکہ اگر وہ گھریلوں کام کاج کرتے رہے تو ان کی صحت کیلئے مفید ہوتا ہے ۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے سرور کونین ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی ایسا شخص تمہارے پاس ’ نکاح ‘ کا پیغام بھیجے جس کے اخلاق اور دینداری سے تم خوش ہو تو اس کا پیغام روانہ کرو بلکہ جس عورت سے نکاح کرنے کا پیغام دیا ہے اس سے نکاح کر دو ، اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین پر بڑا فتنہ و فساد ہوگا ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول ؐ نے ارشاد فرمایا : جب تمہیں کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام دے جس کے دین سے اور اس کے اچھے اخلاق سے تم راضی ہو تو تم اپنی لڑکی کا اس سے نکاح کردو ، اگر تم نہیں کروگے تو زمین میں فتنہ پھیل جائے گا اور زمین میں فساد برپا ہوگا ۔ ضرورت اس بات کی ہیکہ ہم سب کو رشتہ کے معاملے میں اللہ تعالی کو حاضر جان کر سچ کی بنیاد پر رشتہ طے کرنا چاہئے اور لڑکا ، لڑکی کی تعلیمی قابلیت کے علاوہ ان کے کردار ، سیرت دینداری پر زیادہ توجہ دینا چاہئے کیونکہ ہم سب کو یوم حشر کے دن اللہ تعالی کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا اور وہ بڑا سخت وقت ہوگا کیونکہ بارگاہ الہی میں جھوٹ ، دھوکہ بازی ، حیلے و بہانے کام نہیں آئیں گے اگر ان برائیوں کا سدباب کرلیا جائے تو سارا معاشرہ پھر سے ایک مرتبہ اُسی بلندی پر پہونچ سکتا ہے جس پر ہمارے آب و اجداد تھے ۔