ابن غوری
لڑکیاں ( جہیز کی لعنت اور والدین کی شرائط کا شکار ہو کر ) عمر رسیدہ ہورہی ہیں ۔ حسب ذیل باتیں پیش نظر رکھیں تو یہ مشکل آسان ہوسکتی ہے ۔ ٭ لڑکا تعلیم یافتہ ، دینی مزاج کا حامل اور برسرکار ہو تو قابل ترجیح ہونا چاہئے ۔ ( حدیث نبویﷺ ہے : جب کوئی تمہاری طرف نکاح کا پیام بھیجے جس کے دین و اخلاق سے تم راضی ہو تو اس سے نکاح کردو ، اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں بڑا فتنہ و فساد برپا ہوگا ، لڑکی والے اپنے رقعے پر لکھ سکتے ہیں ) ٭ ایسا لڑکا تعلیم میں لڑکی سے کم بھی ہو تو گوارا کرنا چاہئے ( لڑکی بہت اعلی تعلیم یافتہ ہوتی ہے تو اس کی عمر بھی بڑھ جاتی ہے اور یہ رکاوٹ ناقابل عبور ہوتی ہے ) ٭ ضروری نہیں کہ لڑکے کی شادی ، لڑکی کے بعد ہی ہو ( جس کیلئے موزوں رشتہ آجائے خدا کا نام لے کر طے کردیا جائے ۔ ایک نئے خاندان سے تعلق پیدا ہوگا تو نئے دروازے بھی کھلیں گے ) ٭ لڑکا دینی مزاج کا ہو ، تعلیم یافتہ ہو اور برسرروزگار ہو قابل قبول ہونا چاہئے ۔ ٭ عمر رسیدہ مردوں کو چاہئے کہ نکاح ثانی ، ثالث سے پہلے اپنی خاتون اول ، دوم کی دینی ذہن سازی کریں ۔ ان حضرات کو بیوہ (ثیبہ ) سے نکاح میں ہچکچاہٹ بالکل نہیں کرنا چاہئے ۔ ٭ حدیث نبویؐ ہے عورت چار چیزوں پر نکاح کی جاتی ہے ، مال ، حسب و نسب ، حسن و جمال اور دین لیکن تم دین والی کو ترجیح دو ،٭ لڑکی دیکھنے کیلئے ماں ، بیٹی اور باپ ، بیٹا ہی جائیں ، دوسروں کی ضرورت نہیں ، ٭ ضروری نہیں کہ بڑی لڑکی ہی کی شادی پہلے ہو ، ٭ لڑکی کی اعلی تعلیم کے دوران موزوں رشتہ آجائے تو اس کو رد کردینا مناسب نہیں ، ٭ لڑکی عمر رسیدہ ہوچکی ہو تو اس کو صحت مند ، دیندار اور خوش حال کی دوسری بیوی بننے میں تردو نہیں کرنا چاہئے ۔ ٭ اعلی تعلیم یافتہ اور خوبصورت ہونے کے باوجود لڑکیوں کیلئے ضروری ہے کہ پکوان میں بھی ماہر ہوں ( فطری بات ہے کہ مرد کھانے کا رسیا ہوتا ہے اور عورت پہننے کی شوقین ہوتی ہے ) ٭ لڑکی برسرروزگار ہو تو محض اس کی آمدنی سے استفادہ کی غرض سے اس کی شادی میں تاخیر کرنا بہت معیوب بات ہے ۔ ٭ سب سے پہلے از خود آیا ہوا رشتہ مجموعی حیثیت سے قابل قبول ہو تو اس کو رد کرنا مناسب نہیں ( زیادہ تلاش کا نتیجہ پریشان کن نکلتا ہے ) ۔