رشی سونک ‘ ہندوستانی نژاد برطانوی وزیر اعظم

   

زندگی کے ہمیں محور کو بدلنا ہوگا
دوستو وقت کے تیور کو بدلنا ہوگا

برطانیہ میں رشی سونک آئندہ وزیراعظم ہونے والے ہیں۔ انہیں وزارت عظمی کا دعوی پیش کرنے کیلئے درکار ارکان پارلیمنٹ کی تعداد سے زیادہ کی تائید حاصل ہوئی ہے ۔ سابق وزیر اعظم بورس جانسن جو دوبارہ وزارت عظمی پر فائز ہونے کا خواب دیکھ رہے تھے درکار ارکان کی تعداد حاصل کرنے میں ناکام رہے اور اتوار کی شام ہی انہوں نے اس دوڑ سے علیحدگی کا اعلان کردیا تھا ۔ اس کے علاوہ ایک اور دعویدار پینی مورڈنٹ نے بھی وزارت عظمی کی دوڑ سے خود کو الگ کرلیا تھا ۔ رشی سونک ہندوستانی نژاد لیڈر ہیں جو برطانوی وزارت عظمی تک پہونچے ہیں۔ اس سے قبل وہ بورس جانسن کی کابینہ میں وزیر فینانس کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں۔ 42سالہ نوجوان ہیں اور ان سے سارے برطانیہ کو کافی امیدیں ہیں۔ رشی سونک ہندوستان میں انفوسیس کے بانی نارائن مورتی کے داماد ہیں۔ انہوں نے بورس جانسن کے دور وزارت عظمی میں وزیر فینانس کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے برطانیہ کی بحران کا شکار معیشت کو بہتر بنانے اور سدھارنے کیلئے کافی کوششیں کی تھیں۔ تاہم برطانیہ میں حالات بہتر نہیں ہو پائے ہیں۔ بورس جانسن کے استعفی کے بعد لز ٹروس نے یہ عہدہ سنبھالا تھا تاہم انہوں نے دیڑھ مہینے سے بھی کم وقت میں اس عہدہ کو خیرباد کہہ دیا جس کے بعد اب رشی سونک کے اس عہدہ پر فائز ہونے کی راہ ہموار ہوئی ہے ۔ رشی سونک کا جو انتخاب عمل میں آیا ہے وہ اہمیت کا حامل ہے ۔ حالانکہ پینی مورڈنٹ کو اہم دعویدار سمجھا جا رہا تھا ۔ انہیں کچھ ابتدائی سبقت بھی حاصل ہوئی تھی ۔ پھر بورس جانسن کے میدان میں کود پڑنے سے بھی یہ اندیشے پیدا ہونے لگے تھے کہ یہ دوڑ آسان نہیں ہوگی ۔ تاہم بورس جانسن درکار تعداد میںارکان پارلیمنٹ کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے جس کے بعد رشی سونک اس عہدہ پر پہونچ چکے ہیں۔ وہ برطانیہ کی وزارت عظمی پر پہونچنے والے نوجوان اور پہلے ہندوستانی لیڈر ہیں۔ ان سے سارے برطانیہ کو معاشی بہتری کے اقدامات کے تعلق سے کافی امیدیں ہیں۔ وہ وزارت فینانس میں کام کرنے کا تجربہ بھی رکھ تے ہیں۔
رشی سونک کیلئے معاشی حالات مشکل ضرور کہے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے حالانکہ اس وزارت میں کام بھی کیا ہے لیکن حالات جس قدر تیزی کے ساتھ ابتر ہوئے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ رشی سونک کیلئے بھی معیشت کو تیزی سے بہتری کی سمت لانا اور عوام پر جو بوجھ عائد ہو رہا ہے اور انہیں جن مشکلات کا سامنا ہے ان کو ختم کرنے میں مشکل ضرور پیش آسکتی ہے ۔ عالمی حالات کی وجہ سے جو اثرات برطانیہ کی معیشت پر مرتب ہوئے ہیں ان کی وجہ سے صورتحال اور بھی مشکل ہوگئی ہے ۔ داخلی صورتحال بھی بہتر نہیں ہے ۔ روس ۔ یوکرین جنگ کے نتیجہ میں زیادہ معیشت متاثر ہوئی ہے ۔برطانیہ کی توانائی اور فیول کی ضروریات دیگر ذرائع سے پوری کی جا رہی ہیں اور اسی وجہ سے اسے معاشی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے ۔ برطانیہ اب عالمی درجہ بندی میں پانچویں موقف پر بھی نہیں رہا ہے اور وہ چھٹے نمبر پر پہونچ گیا ہے ۔ برطانیہ نے روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کی خاطر خواہ مدد بھی کی ہے تاہم داخلی سطح پر اس کیلئے حالات بہتر نہیں ہیں اور بحران کی جو کیفیت پیدا ہوگئی ہے اس کو دور کرنے کیلئے جامع اور منظم اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ عوام پر بوجھ کو کم کرنے کے مقصد سے ایسے اقدامات کرنے ہونگے جن سے صنعتی شعبہ پر بھی منفی اثرات مرتب نہ ہونے پائیں۔ روزگار کی مارکٹ میں جو افرا تفری ہے اس کو دور کیا جاسکے ۔عوام کے اخراجات زندگی میں جو اضافہ ہوگیا ہے اس کو قابو میں کرنے کیلئے بھی فوری طور پر اقدامات کرنے ہونگے ۔
رشی سونک کیلئے ضروری ہے کہ وہ تمام حالات کا جائزہ لیں۔ مارکٹ کی صورتحال کو ذہن میں رکھیں۔ عوام کی تشویش کا خیال رکھا جائے ۔ کسی بھی فیصلے سے مرتب ہونے والے اثرات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اقدامات کئے جائیں۔ ان کے پاس حالانکہ وقت زیادہ نہیں ہے لیکن انہیں کوئی بھی فیصلہ جلد بازی میں بھی کرنے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ لز ٹروس نے جلد بازی میں ٹیکس کٹوتی کا اعلان کردیا تھا اور یہی اعلان ان کے وزیر فینانس اور پھر خود ان کی علیحدگی کی وجہ بن گیا تھا ۔ بحیثیت مجموعی کہا جاسکتا ہے کہ مشکل حالات میں رشی سونک یہ ذمہ داری سنبھال رہے ہیں تاہم ان کے تجربہ کو دیکھتے ہوئے مثبت امیدیں ضروری وابستہ کی جاسکتی ہیں۔