رفیق زندگی، شریک زندگی || ازقلم :عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری

   

رفیق زندگی، شریک زندگی ||

ازقلم :عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری

مرد ہو یا عورت دونوں کو اپنی مرضی کاساتھی (selection of life partner)چُننے کی آزادی ہے۔

ترقّی یافتہ معاشرے میں شریک حیات کے انتخاب کے سلسلے میں علمی لیاقت، اچھّی نوکری، حُسن وجمال، ماڈرن سوچ، اونچاخاندان، مال ودولت، ذات برادری، کفو، کا کافی عمل دخل ہوتا ہے-

شادی ایک دوسرے کے حقوق وفرائض کی ادائیگی وتحفظ کا ذریعہ ہے – یہ عزّت و پا کیزگی، مظاہرہ جمال، لطف وکرم وثبات، غیرت و استغناء کا ضامن ہے –

شادی کے لیے دین داری کو معیار انتخاب بنالیا جائے تو پھر خوبصورتی، مال داری کی حیثیت ثانوی رہ جاتی ہے۔ ہمارے گھر کا ماحول دینی اور عملاً نمازی نہیں تو شریک حیات کا دین دار تلاش کرنا زیادہ فائدہ مند نہیں ہو سکتا -خوب رو(Handsome)پری چہرہ، مال دار، اونچے عہدے، پرکشش تنخواہ، اچھّے فلیٹ کے مالک لڑکے، اکلوتی بیٹی کا انتخاب ہمیشہ خوشیاں ہی نہیں دیتا۔

ذیل میں کچھ سوالات ہیں ان کی روشنی میں کیا غلط کیا صحیح ہے، کسے اپنا ئیں کسے چھوڑ یں؟ انتخاب آپ کی شخصیت پر ہے-آپ اپنی سوچ کے مطابق ایک فہرست تیاّر کرلیں-

(1) بطورِ شریک زندگی میں اسے کیوں منتخب کررہا ہوں؟ وجوہات کیا ہیں؟

(2)کیا مال دار، برسر روزگارworking women شریک زندگی کا انتخاب واقعی مفید ہوگا؟

(3)کیا ہم دونوں کی سوچ، پسند ناپسند، ذوق ومزاج ملتےجلتے ہیں؟

وہ کون ہے؟ کیسے ہے؟ اخلاق وکردارکیساہے؟

(4) کیا واقعی عملی دین داری ہے؟

(5)کیا اس رشتے سے مجھے محبت، اعتماد،trust عزّت وتکریم ملے گی؟

(6)خاندان، تہزیب، رسم ورواج، طور طریقے، رشتہ داریاں نظریات اور سوچ attribute کیسی ہیں؟

(7) دینی، عصری تعلیم وشعورکہاں تک اور کیسا ہے؟

(8)ادب واحترام، زبان، شائستگی کی قدریں کیسی ہیں؟

(9) کیا ہم ایک دوسرے کے خاندان میں ایڈجیسٹ ہوں گے؟

(10)اس رشتے کی بدولت، سکون، مستحکم خاندان، خوش گوار ازدواجی زندگی، ایک دوسرے کی دبی صلاحیتوں اور مقاصدزندگی کو پروان چڑھانے میں مدد، تعاون حوصلہ اور مواقع ملیں گے؟

اب آ کے لگ ر ہے ہیں پروں پر ہو ا کے تیر

پرواز اپنی روک دوں ٹھر جاؤں کیا کروں

(11) کیا بر سر روزگار لڑکی دونوں طرف توازن قائم رکھ سکے گی؟

(12)اس کا مال اور ذریعہ معاش واقعی فریقین کے لیے باعث سکون ہوگا یا جھگڑے اور شکوک وشبہات کا سبب بنے گا؟

شادی کے انتخاب میں خوب غور وفکر، مشورہاور استخارے کے بعد مہلت سے فیصلہ کیجیے۔اس انتہائی اہم فیصلے میں عجلت ٹھیک نہیں ۔

سیرت پر نظر چاہیے صورت سے زیادہ

جن گھرانوں میں بے انتہا آرام وآسائش اور مال وزر کی فراوانی، نوکر چاکراور مزاجوں میں روشن خیالی وآزادی ہو انھیں اسی جوڑ کا رشتہ کر نا چاہیے۔ورنہ توازن قائم نہ رہ سکے گا۔بعض گھرانے سخت دین دار، روایت پسند، پردے کےسخت پابند ہوتے ہیں اگر وہ کسی بے دین سے رشتہ جوڑ لیں تو نبھاؤ مشکل ہوگا۔اسی طرح کے بے جوڑ نکاح سے گھر کا سکون اور شیرازہ بکھر جاتا ہے۔

یہ راستہ تو مسافر کے ساتھ چلتا ہے

  زندگی میں اطمینان اسی وقت ممکن ہے جب تصادم کےبجائے تعمیر نو ہو، ایک دوسرے کے سُکھ، دُکھ، عزّت نفس، آداب، حقوق وفرائض ،آرام کا پاس و لحاظ ہو-

زندگی نام ہے اندرون کی خوشی کا اپنے خیالات، احساسات، اور جذبات

کی تربیت، positive approach and attitude انھیں صحیح رُخ دینا اور بروئے کار لانا آپ کا کام ہے-

الله تعالیٰ فرماتے ہیں

ان کے ساتھ بھلے طریقے سے رہو، اگر تمہیں وہ نا پسند ہوں تو عجب نہیں کی تم ایک چیز کو نا پسند کرو اور الله نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو”

(النساء:19)

اسلام نےجو معاشرتی اور عائلی نظام قائم کیا ہے اس کی بنیاد آپسی بھائی چارہ، میل جول، اور محبت والفت پر ہے۔ازدواجی زندگی میں خوش گوار تعلقات اور معافی ودرگزر بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اس کے بغیر کوئی بھی خاندان مضبوط، ،باعث سکون وراحت، calm and cool, مستحکم اور خوش نہیں رہ سکتا-

الفت کا جب مزہ ہےکہ دونوں ہوں بےقرار

د و نو ں طر ف ہو آگ بر ا بر لگی ہو ئی

محبت تلخ کو شیریں، مٹّی کو سونا، نفرت کو محبت اور دردوالم کو شفاء میں تبدیل کر دیتی ہے ۔ یہی محبت تکلیف کو راحت ،قہر کورحمت اور قید کو جنت بنادیتی ہے ۔یہ وہ چیز ہے جو لوہے کو پگھلا دیتی، پتّھر کو موم کردیتی اور تن مردہ میں حیات تازہ پھونک دیتی ہے-

اچھے شوہر کی صفات

حسن سلوک، عفوودرگزر، خوش اخلاقی ومحبت، خرچ میں کشادگی، تربیت وتہزیب، نرمی واحسان کی روش کی ذمہ داری ہے ۔

رسولؐ گھر والوں کے لیے انتہائ رحم دل، نرم مزاج ،مہر بان اور خوش رو(kind-hearted) تھے۔

تند مزاجی، سختی اور کُھر درا پن گھر کی فضا کو خراب کرتا ہے ۔ مرد کا وجود گھر والوں کے لیےخوش دلی، مسرت، الفت اور رحمت لیے ہو۔سخت داروغہ کا وجود، جس کی ترش روی اور باز پرس کے اندیشے سے گھر والے ہمیشہ خوف زدہ depression میں رہتے ہوں یہ طریقہ درست نہیں۔

نہ گُل اپنا کیا میں نے نہ بُلبل ،باغبان اپنا

چمن میں کس بھروسے با ندھا آشیاں اپنا

“تم میں بہترین آدمی وہ ہے، جو اپنے بیوی بچّوں کے لیے بہترین ہو اور میں تم میں سب سے بہتر ہوں کیوں کہ! اپنے اہل وعیال کے لیے سب سے اچّھا ہوں”۔(ابن ماجہ)

شہنشاہ کونین صلی الله عليه وسلم جب گھر میں ہوتے تواہل خانہ کےگھریلو کاموں میں ہاتھ بٹاتے، کپڑوں میں ضرورت ہو تو پیوند لگا لیتے، جوتا گانٹھتے، جانوروں کا دودھ دوہ لیتے تھے۔

 آج معاشرے میں بھاری بھرکم مہر اور سامان جہیز کی زیادتی نے نکاح کی آسانی کو رحمت کی بجائےزحمت بنا دیا ہے۔ ایسے مطالبات سے فریقین کو بچنا چاہئے ۔

نیک بیوی کی صفات

اچھّی بیوی گھرکی رونق، زینت ،عزّت اور وقار ہے۔وہ خاندانی زندگی میں ایک موثروجود ہے۔

نیک بیویاں شوہر کی اطاعت کرنے والی ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے الله کی حفاظت ونگرانی میں ان کے حقوق اور امانتوں کی حفاظت کرتی ہیں۔(النساء:37)

 (ا) شوہر کی اطاعت ۔

(2)آبرو کی حفاظت ۔

(3)شوہر کی رضا جوئی۔

(4)شکر گزاری اور احسان مندی۔

(5) شوہر کے گھر بار اور مال کی حفاظت ۔

(6) سلیقہ، صفائی، اور آرائش-

دین داری، کشش، عقل، شعور، محبت، نرم مزاجی، مہربانی، مٹھاس، مدد، صبر، معقول رویہ، بے غرضی، خوشی، ایثار پیشگی، فرض شناسی، وفاداری، وہ شوہر کی بن کر، رہے، تمام دلچسپیاں اس، کے لیے مخصوص کردے اور یہ طے کر لے کہ اب خوشی خوشی پوری زندگی اسی کے ساتھ نباہنا ہے۔مثالی بیوی کی یہ عظیم خوبیاں ہیں ۔

پیار کی میٹھی نظر سے تو نے جب دیکھا مجھے

تلخیا ں سب ز ند گی کی لطف سا ما ں ہو گئیں

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہا کسی قدر تیز مزاج تھے۔حضرت عاتکہ نے اپنے بہترین سلوک اور پیہم خدمت کے ذریعہ ان کو اپنا گرویدہ بنالیا ۔

خودعبداللہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں.

“میری بدمزاجی کو میری عاتکہ رضی اللہ عنہا نے بدل دیا۔عاتکہ میری دمساز، شیرین زبان اور عاجزی پسند بیوی ہے۔ جب میں تھکا تھکا یا باہر سے آتا ہوں وہ ہر طرف سے بے پرواہ ہو کر میری طرف متوجّہ ہو جاتی ہیں ۔رات کو جب میں سوتا ہوں تو پاؤں دباتی ہیں، سر میں تیل ڈالتی ہیں ۔جب کبھی میں ناراض ہوتا ہوں تو نیچی نظریں کرکے خاموش کھڑی ہو جاتی ہیں” ۔

راہ کانٹوں بھری گلشن میں بدل سکتی تھی

ایک دوجے کو کبھی ہم جو سمجھتے جاناں

شوہر کی طرف سے ذراسی ناراضی اور التفات میں کمی ہوتے ہی عورتیں اس کے تمام احسانات، حُسن سلوک کو نظرانداز کرکے کہنے لگ جاتی ہیں کہ اس سے مجھے کبھی اچھّا سلوک ملا ہی نہیں کہہ کر ناشکری کرتی ہیں ۔اس کے بل مقابل ایک شکر گزار بیوی کے احساسات یہ ہین کہ

“میں اپنے والد کے گھر بن بیاہی بیٹھی تھی الله نے مجھے شوہر عطا کیا، اس نے میرے کانوں اور سونی کلائی کو زیور سے بھر دیا۔میرا دبلا پتلا بدن دہرا ہوگیا، مجھے اپنائیت، پیار محبت اور پورا پوراحق دے کر میری عزّت

وتکریم بڑھائی۔ مجھے اپنے گھر کی ملکہ بنادیا،پیارے پیارے بچوّں سے میری گود بھردی”۔

انا(ego)، غصہ(anger)، لالچ،خود غرضی(selfish)، تکبر، شہرت، نام و نمود،انانیت(individualism) جھوٹی شان، حسد، فیشن پرستی، heat, دوسروں کی تقلید، بناوٹی معیارِ زندگی، عیش پسندی ،بے کار مشاغل، لوگ کیا کہیں گے؟ جھگڑوں، کورٹ کچہری کے چکرّوں اور winer بنے کے شوق میں اپنی قیمتی زندگی کا سودا مت کیجیے۔اسے نفرت کی آگ کی نذر مت کیجیے۔

کہانی گھر کی غیرت منداپنے گھر میں رکھتے ہیں

زرا زراسی بات پر حد درجہ غصہ، بیوی کو طعنہ دینا، عار دلانا، عزّت نفس کو ٹھیس پہنچانا، طلاق کی دھمکی دینا اچھّے خاصے گھر کو برباد کر دیتا ہے ۔اسی طرح زبان درازی، بد زبانی، برابری، میکے کا غرور، والدہ کے گھر بیٹھ جانے کی دھونس، روز گارکا زعم، خلع کے بعد من پسند شادی ہو جانے کا بھرم، لگائی بجھائی کی نقل، چغلی ہنستے کھیلتے گھر بار کو ویران کر دیتے ہیں ۔یہ اقدام کوئی پسندیدہ نہیں ۔اس کے تباہ کن اثرات سے نہ صرف فریقین بلکہ اولاد پیار دلار سے محروم اور خاندان رشتہ داروں میں بغض و عناد، نفرت وعداوت کی بنیاد پڑجاتی ہے ۔جس کے اثرات بعد کی نسلوں کو بُھگتنے پڑتے ہیں ۔کتنے ہی پیچیدہ مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور کتنی ہی زندگیاں تلخ ہو جاتی ہیں ۔

خود بھی تنہا ہوئے مجھ کو بھی تنہا کر دیا

اس رشتہ کو سنواریے، نکھاریے، اور خوش وخرم گزاریے۔

اے الله! ہم میں اضافہ کر، کمی نہ کر، ہمیں عزّت وآبرو دے اور خوار نہ کر، ہمیں عطافرما اور محروم نہ رکھ، ہمیں دوسروں پر بالا رکھ ،دوسروں کو ہم پر موثر نہ بنا اور ہمیں خوش رکھ اور ہم سے خوش رہ۔مجھے اس چیز کی توفیق دے جسے تو پسند کرے، اچھا سمجھے خواہ وہ قول ہو عمل یا فعل یا نیت یا طریق ہو ۔۔

عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری(گوونڈی،ممبئی)