رمضان المبارک‘ رحمتوں و مغفرتوںکا ماہِ کریم

   

مولاناسید اسحاق محی الدین قادری
محبوب سبحانی حضورسیدناشیخ عبدالقادر جیلانی ؓ
حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت ۲۹؍شعبان المعظم ۴۷۰؁ھ میں بمقام جیلان میں ہوئی ۔آپ والد کے طرف سے حسنیؓ اور والدہ کی طرف سے حسینی یعنی نجیب الطرفین سید ہیں۔آپ کے والد ماجد حضرت سیدابوصالح ؒولی کامل تھے۔اور جنگ وجہاد سے بہت انس رکھنے کی وجہ سے’’ جنگی دوست ‘‘مشہور تھے۔حضور سیدنا غوث اعظم ؓ کے نانا بزرگوار سید عبداللہ صومعی ؒ بھی جیلان کے مشہور مشائخ ورؤسا میں سے تھے۔آپ ؓ کے والد ونانا بزرگوار کاانتقال آپ کی کم سنی میں ہی ہوگیا تھا اس لئے آپ کی سرپرستی اورتعلیم وتربیت کااہتمام آپ کی والدہ ماجدہ کے ذمے رہا۔ حضرت سیدنا غوث اعظم ؓ عہدطفلی سے اپنی عمر شریف کے نوے برس تک اطیعوااللہ واطیعواالرسول کامجسمہ بنے رہے ۔دین وشریعت کاجوعلم اپنے وطن سے بے وطن ہوکر حاصل کیا تھا اس پر پوری طرح عمل پیرا رہے اورامت مسلمہ میں اس علم کی اشاعت کرتے رہے اوراپنی ساری قوتیں ساری صلاحتیں دین متین کی نشرواشاعت اور حفظ وترقی میں صرف کردیںاوراپنی مجالس وعظ میں بندگان خدا کوخدا کی طرف رجوع کرنے اوراللہ سے ان کاتعلق مستحکم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔اپنی سیرت وکردار کاوہ نمونہ آپ نے لوگوں کے سامنے پیش کیا کہ اس کو دیکھ کر ان کاایمان تازہ ہوتا تھا اور علم وعمل کی ایک شان اس سے ظاہر ہوتی تھی۔بے شمارکفار ومشرکین اور یہودومجوس آپ کے کلمات طیبات کو سن کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔سلطان الاولیاء سید الافراد حضور غوث الاعظم ؓ کی ذات گرامی اور ان کی باعظمت شخصیت کاتذکرہ کبھی تعارف کے لئے ہونا ہے اور کبھی حصول سعادت کے لئے۔ اولیاء کرام تو بہت آئے اور قیامت تک آتے رہیں گے لیکن یہ بات شک سے بالا تر ہے کہ کشف وکرامات اور مجاہدات وتصرفات کی بعض خصوصیات کے لحاظ سے سرکار غوث الاعظم ؓ کو اولیاء کی جماعت میں منفرد مقام حاصل ہے۔حضور سیدنا غوث اعظم ؓ کی کرامات کی کثرت پر تمام مؤرخین کااتفاق ہے مگر آپ کی سب سے بڑی کرامت جس کی بدولت آپ ؓ دنیائے ولایت کے شہنشاہ مانے گئے۔یہ ہے کہ ایک مرتبہ جلسہ میں اپنے مہمان خانے میں وعظ فرماتے ہوئے آپ پر حالت کشفی طاری ہوئی اور آپ نے فرمایا۔ قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلیٰ رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللّٰہ (میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے)۔اس مجلس میں عراق کے سب اکابر مشائخ موجود تھے سب نے یہ ارشاد گرامی سن کر اپنی گردنیں خم کردیں۔اورتمام کرّہ ارض پرجہاں جہاں کوئی قطب،ابدال یاولی تھے ہرایک نے آپ ؓ کے یہ الفاظ سن کرگردن جھکادی۔اورعارف کامل شیخ علیؓ بن ابونصرالہیتی جومجلس میں حاضر تھے ،اٹھ کر آپ کے قدم مبارک اپنی گردن میں رکھ لیا۔
مولانا قاری محمد مبشر احمد رضوی
روزے ۲ھ ؁ میں فرض ہوئے۔ اسکی فرضیت‘ ہر مسلمان عاقل و بالغ (مرد و عورت) پر لازم اور ضروری ہے۔ روزہ گذشتہ اُمّتوںکیلئے بھی تھا لیکن نوعیت جداگانہ تھی۔ حضرت سیدنا آدم علیہ السلام ہر ماہ کی ۱۳‘ ۱۴‘ اور ۱۵ تاریخ کو روزہ رکھتے تھے۔ حضرت سیدنا نوح علیہ السلام ہمیشہ روزہ دار رہتے تھے۔ حضرت سیدنا دائود علیہ السلام ایک دن چھوڑ کر ایک دن روزہ رکھتے تھے اور حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے اور دو (۲) دن نہ رکھتے تھے۔ معلوم یہ ہوا کہ انبیاء کرام علیھم السلام کے معمولات میں روزہ ہمیشہ سے داخل ہے اور منشائے ایزوی یہی کہ بندہ متقی و پرہیزگار بن جائے۔حضرت سیدنا عبداللہ ابن عمر ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ روزہ اور قرآن بندے کیلئے شفاعت کرینگے‘ روزہ عرض کریگا کہ اے بارالٰہی! میں نے اسے کھانے اور خواہشات سے دن میں روکا تھا میری شفاعت اُسکے حق میں قبول فرما۔ قرآن کہیگا کہ میں نے اسے رات میں سونے سے باز رکھا میری شفاعت اسکے لئے قبول فرما۔ روزہ اور قرآن کی شفاعتیں قبول کی جائیگی (طبرانی و بیہقی شریف)آقائے نامدار‘ مدنی تاجدار حضور سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا ہے تو میری اُمّت تمنّاکرتی کہ کاش! پورا سال رمضان ہی ہو(ابن خزیمہ) حضرت العلامہ مولانا مفتی احمد یار خان صاحب نعیمی‘ تفسیر نعیمی میں اِس ماہ کے چار نام بتائے ہیں۔ رمضان‘ ماہ صبر‘ ماہ مؤاسات اور ماہ وسعتِ رزق۔ حضرت سیدنا ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب ماہِ رمضان شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ایک روایت میں ہیکہ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین زنجیروں میں جکڑدیئے جاتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں (بخاری و مسلم)
روزہ ‘ باطنی عبادت ہے جبتک روزہ دار‘ روزہ کا اظہار نہ کرے اُسوقت تک عمل پوشیدہ ہے اور اس میں ریا کا شائبہ نہیں ‘ اللہ تعالیٰ کو پوشیدہ اور بے ریا عبادت بیحد پسندہے۔ چنانچہ حدیث قدسی میں ارشاد ہے کہ ’’روزہ میرے لئے ہے اور اُسکی جزاء میں خود دونگا‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا مزید ارشاد ہے کہ بندہ اپنی خواہش اور کھانے پینے کو صرف میری وجہ سے ترک کرتاہے اسلئے وہ میرا محبوب ہے۔دعا ہیکہ مولائے کریم‘ اہل ایمان کے روزوں اور دیگر عبادات کو اپنے کرم سے بوسیلئہ مصطفی ﷺ قبول و مقبول فرمائے۔آمین یارب العٰلمین۔