مولانا حبیب سہیل بن سعید العیدروس
ماہِ رمضان اپنی تمام برکتوں ، وسعتوں اور نعمتوں کے ساتھ عنقریب آمد پذیر ہے ۔یہ وہ مہینہ ہے جس میں اہلِ ایماں کے لئے بے پناہ تحائفِ ارضی وسماوی کا نزول ہوتا ہے ، وہ مہینہ جس میں جودوسخا بحرِ بے کنار کی طرح بہتی ہے جس کے بارے میں اﷲ تعالیٰ کے حبیب ﷺ نے ایک دفعہ ذکر فرماتے ہوئے بطور تعظیم و ترغیب پوچھا ’’کیا تم جانتے ہو تمہارے پاس کیا آرہا ہے اور تم کیا حاصل کرنے والے ہو !؟‘‘ ۔
یہ جملے عظمتِ ماہِ رمضان کی طرف اشارہ ہیں کہ جس کی حقیقت سے اُمّتِ مسلمہ ناواقف ہے ۔ اہلِ ایمان کو چائے کہ اس مہینے میں اپنے روابط اﷲ تعالیٰ کے ساتھ قائم فرمالیں ۔ وہ اﷲ وحدہ جس نے اس مہینے کو ہمارے لئے عظیم موقعِ حصولِ انعام و اکرام اور لائق سزاوارِ بخشش و مغفرت بنایا ہے۔ ہمیں اس ماہِ مبارک کا استقبال تین طریقوں سے کرنا چاہئے ، سب سے اولین طریقہ اس ماہ کی آمد پر ظاہر و باطن سے اظہارِ خوشی و مسرت ہے جس کے بارے میں خود کلامِ رب ذوالجلال ہے : ’’فرمادیجئے ! اﷲ کے فضل اور اس کی رحمت کے حصول کے باعث مسلمانوں کو چائے کہ اس پر خوشیاں منائے ، یہ اس ( سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں‘‘۔ (سورۂ یونس :۵۸)اﷲ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کی طرف نظر کرنے جو اس مہینے میں لوگوں پر نازل کی جاتی ہے ۔ حضرت سلمانؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ہم سے ماہِ شعبان کے آخری دن خطاب فرمایا کہ : ’’اے لوگو! ایک عظیم اور مبارک مہینہ تم پر سایہ فگن ہوچکا ہے ، وہ مہینہ جس میں ایک ایسی رات ہے جو مرتبہ میں ہزار مہینوں کی راتوں سے زیادہ افضل ہے ۔ اس مہینے کے دنوں میں اﷲ تعالیٰ نے روزے فرض فرمائے ہیں اور راتوں کے قیام کو مستحب قرار دیا ہے جو کوئی شخص اﷲ تعالیٰ کی رضا و قربت کی نیت سے اس مہینے میں کوئی نیک عمل کرے گا تو اس کی جزاء عام دنوں میں فرض ادا کرنے کے برابر عطا کی جائے گی اور جو کوئی شخص اس مہینے میں کوئی فرض عمل کرے گا تو اس کی جزاء عام دنوں میں ستر فرض ادا کرنے کے برابر دی جائے گی ۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے ۔ یہ مہینہ کثرت سے صدقہ دینے کا ہے اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں ایمان والوں کا رزق بڑھادیا جاتا ہے ‘‘۔ ( ابن خزیمہ)
حضور ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ رمضان کے روزے فرض اور راتوں کے قیام کو مستحب رکھا ہے جو شخص اس کے دن کو روزہ رکھتا ہے اور راتوں کو حالتِ ایمان میں قیام ( عبادت ) کرتا ہے اور اﷲ تعالیٰ سے ثواب کی اُمید کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ ایسے شخص کو گناہوں سے اس طرح پاک فرمادیگا جس طرح وہ اس وقت تھا جبکہ اس کی ماں نے پیدا کیا تھا‘‘۔ (احمدو نسائی )
یہ بھی فرمانِ رسالت مآب ﷺ ہے کہ اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ۔ ( بیہقی )
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اعمال ، عبادات اور توبہ کیلئے آسان ہے کہ قبولیت پاجائے ۔ دروازے کھول دیئے گئے ہیں کہ اُمت کسی طرح قدم آگے بڑھائے تاکہ آگے ابواب اجابت بڑھ کر مقبولِ بارگاہِ ایزدی کردیں۔ مخبراعظم ﷺ نے یہاں تک خبر دی ہے کہ اﷲ تعالیٰ رمضان کے آغاز سے ہی ان فرشتوں سے فرماتا ہے جو حاملین عرش ہیں کہ میری تسبیح چھوڑو اور اس مہینے میں اُمتِ محمدی ﷺ کے لئے مغفرت طلب کرو۔(مسند دیلمی)
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری اُمت کو اﷲ تعالیٰ نے رمضان میں پانچ ایسی خصوصیات دی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ رمضان کی پہلی رات ان ( سب عبادت گزار) بندوں پر نظرِ التفات فرمائے گا اور جس پر اﷲ کی نظرکرم ہوجائے اس کو کبھی عذاب نہیں چھوسکتا ۔ دوسری یہ کہ روزہ داروں کے منہ سے نکلنے والی بُو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ میٹھی ہے ۔ تیسری یہ کہ فرشتے ان کے لئے صبح و شام مغفرت طلب کرتے رہتے ہیں ۔ چوتھی یہ کہ اﷲ تعالیٰ جنت کو حکم دیتا ہے کہ اپنے آپ کو تیارکرلے ، مزید زیب و زینت اور خوبصورتی سے آراستہ ہوجا کیونکہ میرے بندے بہت جلد دنیا کی تنگیوں ، پریشانیوں ، سختیوں اور گہما گہمیوں سے بھاگ کر میری جنت میں سکون و اطمینان حاصل کریں گے ۔ پانچویں یہ کہ ان تمام کو رمضان کی آخری شب بخشش عطا کردی جائیگی ۔
کسی نے سوال کیا : ’’کیا وہ رات شبِ قدر ہوگی ؟ ‘‘
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’نہیں ! ملازمین کو دیکھو ! جب وہ اپنا کام ختم کرتے ہیں تو ان کو تنخواہ دی جاتی ہے ‘‘ ۔ (البیہقی )یعنی جس طرح ملازمین کو اُجرت دی جاتی ہے اس طرح مہینہ بھر عبادات ، روزے ، صبر اور تمام نیکیوں کی اُجرت اُمتِ مسلمہ کے وہ افراد جنھوں نے اخلاص کے ساتھ عمل کیا اُنکو دی جاتی ہے جوکہ شبِ قدر اور دیگر ایامِ رمضان کے علاوہ فضیلت ہے ۔
دوسرا طریقہ استقبالِ ماہِ رمضان کا یہ ہونا چاہئے کہ ہم ان تمام چیزوں سے اجتناب کریں جو انعاماتِ خداوندی سے مانع ہیں ۔ روزے اور دیگر تمام عبادات ہمارے لئے اس لئے فرض کی گئیں ہیں کہ ہم تقویٰ حاصل کریںجیسا کہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوا : ’’اے ایمان والو ! تم پر اس طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار (متقی) بن جاؤ ‘‘۔ (سورۃ البقرہ ۔۱۸۲)دیکھا یہ جاتا ہے کہ ہم روزہ اور عبادتیں کرتے ہوئے بھی زبان کا استعمال کرتے ہیں ۔یہ صرف گالی گلوج تک محدود نہیں بلکہ زبان کسی بھی دوسرے شخص کو تکلیف پہنچانا ، اذیت دینا ، دلوں کو توڑنے والی گفتگو کرنا ، غرباء و مساکین جو آپ تک آئیں ان کو بُرے کلام سے جھڑکنا یہ تمام اسباب ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے انعامات کو ہمارے دروازے سے ہی واپس لوٹاسکتے ہیں ۔ حضور اکرم ﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے دلوں کو جوڑنے والا بناکر بھیجا نہ کہ توڑنے والا ۔ آنحضرت ﷺ نے دلوں کو جوڑکر خون کے پیاسوں کو بھی آپسی اُخوت ، بھائی چارگی میں باندھا دیا تھا جس کے متعلق قرآن فرماتا ہے : ’’… اور اپنے اوپر اﷲ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے ) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کرددی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے ‘‘۔ (سورۂآلِ عمران) چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’اگر کوئی شخص برے کلام اوراس پر عمل کو ترک نہیں کرتا تو اﷲ تعالیٰ کو اس شخص کے کھانے پینے سے رُکے رہنے ( یعنی روزوں) کی کوئی پرواہ نہیں ‘‘۔ (بخاری و ترمذی)
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا چار قسم کے لوگ ماہِ رمضان میں بھی اﷲ کی بخشش کے حقدار نہیں ہوں گے ۔ ایک وہ جو صلہ رحمی نہیں کرتا یعنی رشتہ داری توڑنے والا ، دوسرا جو اپنے ماں باپ کا نافرمان ہے ، تیسرا جس کے دل میں دوسرے مسلمان کے تعلق سے کینہ حسد ہو اور چوتھا جو نشے کا عادی ہو‘‘۔
ایمان والے کو چاہئے کہ وہ اپنا افطار حلال رزق سے کرے کیونکہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ’’اﷲ تعالیٰ پاک ہے اور سوائے پاک اشیاء کے کسی چیز کو پسند نہیں فرماتا ‘‘۔ ( مسلم )
حضرت علامہ الشیخ حبیب عمر بن حفیظ حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب تم روزہ رکھو تو خیال رکھو کہ تم کس چیز سے افطار کرتے ہو اور اس کے ذریعہ کس چیز کو نقصان پہونچاتے ہو۔
تیسرا طریقہ استقبالِ رمضان کا یہ ہو کہ ہم اس بات کا پختہ عزم کریں کہ ہم جس قدر ہوسکے نیک اعمال کریں گے اور حسن نیت سے کریں گے جس میں ریاکاری کا دخل نہ ہو ۔ اس لئے کہ رسول اﷲ ﷺ سے روایت ہے کہ ایک فرشتہ رمضان کی ہر رات ندا دیتا ہے کہ اے اچھائی کے طلبگار ! آگے بڑھ اور حاصل کرلے اور اے برائی کے طالب ! دوری اختیار کرلے۔ ( حاکم و بیہقی )
پس کہ بندے کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ اپنی نیت کی طرف متوجہ رہے اور مسلسل اس کو صحیح کرتا رہے ۔ اپنی ذمہ داری صحیح ادا کرتا رہے جو اس پر خدا کی جانب سے اہل و عیال اور اہل خانہ سے متعلق عائد ہیں اور مسلمانوں اور تمام انسانیت کے ساتھ حسن سلوک کرتا رہے ۔ اگر یہ نیتیں کسی بندے میں ہوں گی تو وہ فرشتے کی طرف سے بلایا جائیگا اور انعامات میں مسرور رہے گا ۔
الغرض کے اس ماہِ مبارک میں ابوابِ جنت کو بندوں کے لئے ہر لحاظ سے کھول دیا جاتا ہے ، پختہ ارادے کے ساتھ ، دلوں کو نفرتوں سے پاک کرکے ، حضورقلب اور مزاج کی چُستی کے ساتھ رمضان کا استقبال کریں ۔ دعاؤں اور نمازوں کے ذریعہ بزرگانِ دین کی برکتوں اور فیضان کے ساتھ نیک اعمال کی طرف رغبت حاصل کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو راضی کریں۔ اﷲ تعالیٰ ہم تمام کی عبادتیں ، حاجتیں پوری فرماتے ہوئے امن و سکون کے ساتھ رمضان کی برکتیں اورنعمتیں عطا فرمائے اور سنتِ نبوی ﷺ پر کمالِ عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین بجاہ سیدالمرسلین و آلہ الطیبین