ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
ویسے تو بی جے پی میں کئی قائدین ایسے ہیں جو سیاسی اختلاف میں اپنا آپا گنوا بیٹھے ہیں اور سیاسی مخالفین کے خلاف انتہائی ناشائستہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ انہیں سیاست میں اخلاقیات و اقدار کا کوئی پاس و لحاظ نہیں رہتا اور محض سیاست کو ترجیح دیتے ہیں۔ بی جے پی ویسے تو ہندوستانیت کی بات کرتی ہے لیکن جہاں تک اس کے قائدین کا سوال ہے وہ ہندوستان کی روایات اور یہاں کی تہذیب و تمدن کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ ان قائدین کے جو سیاسی رہنما ہوتے ہیں وہ بھی اس طرح کی غیراخلاقی بیان بازیوں پر کوئی روک نہیں لگاتے۔ ایک طرح سے ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کیونکہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی اور وہ بے قابو اور بے لگام ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں قائدین میں رمیش بھدوڑی کا شمار ہوتا ہے بلکہ وہ ایسے قائدین سے بھی ایک قدم آگے نکل جاتے ہیں۔ ماضی میں بھی رمیش بھدوڑی نے ایوان پارلیمنٹ میں بھی انتہائی غیرشائستہ اور نازبیا زبان استعمال کی تھی اور اب ایوان کے باہر بھی رہ کر بے قابو زبان اور لب و لہجہ استعمال کرنے لگے ہیں۔ ماضی میں رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی کے خلاف انتہائی غیرپارلیمانی زبان استعمال کی ہے۔ انہوں نے کنور دانش علی کی سیاسی مخالفت میں پارلیمنٹ کے وقار اور تقدس کا خیال تک نہیں کیا اور ایوان کے معیار کو پامال کیا تھا۔ اس وقت رمیش بھدوڑی کے خلاف کوئی کارروائی نہیںکی گئی اور نہ ہی ان کی سرزنش ہوئی نہ باز پرس کی گئی۔ حد تو یہ ہیکہ ان کے الفاظ اور لب و لہجہ کی کوئی مذمت ہی کی گئی۔ یہی وجہ ہیکہ وہ اب بھی سیاسی مخالفین کے خلاف بے قابو اور بے ہنگم زبان استعمال کرنے لگے ہیں۔ وہ نہ صرف بیان بازی کررہے ہیں بلکہ اس کا کھل کر اور واضح انداز میں دفاع بھی کررہے ہیں۔ جب حالات اور صورتحال بے قابو ہوتی دکھائی دی تو انہوں نے صرف افسوس کا اظہار کیا اور اب بھی معذرت کرنے سے گریز ہی کیا ہے۔ یہ طرزعمل ہندوستان کی سیاسی روایات کے یکسر مغائر ہے اور ایسے رویہ کی ہمارے سماج میں کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔ بی جے پی تاہم اس صورتحال کو سمجھنے اور قبول کرنے کو بالکل تیار نہیں دکھائی دیتی۔
رمیش بھدوڑی کو جب لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے امیدوار نہیں بنایا تو یہ قیاس کیا جارہا تھا کہ پارلیمنٹ میں ناشائستہ زبان کے استعمال کی وجہ سے ایسا کیا گیا ہے لیکن اب بی جے پی نے بھدوڑی کو دہلی اسمبلی کیلئے اپنا امیدوار بنایا ہے جس کے بعد بھدوڑی ایک بار پھر سے ناشائستہ زبان کا استعمال شروع کردیا ہے۔ پہلے انہوں نے کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی کے تعلق سے غیرمہذب الفاظ کا استعمال کیا۔ اس کی مدافعت کرنے کی کوشش کی اور جب اس پر عوامی موڈ کا احساس ہوا تو اس پر افسوس کا اظہار کیا۔ ابھی یہ معاملہ گرم ہی تھا کہ انہوں نے اپنی مخالف امیدوار اور چیف منسٹر دہلی آتشی کے خلاف بھی متنازعہ ریمارکس کئے ہیں۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ مسلمہ ہے اور اس میں کوئی مسئلہ بھی نہیں ہے لیکن غیرمہذب اور ناشائستہ لب و لہجہ ملک کی روایات اور سیاسی اقدار و اخلاقیات کے یکسر مغائر ہے اور بی جے پی قیادت کو اس کی نہ صرف مذمت کرنی چاہئے بلکہ رمیش بھدوڑی کی سرزنش بھی کی جانی چاہئے۔ سیاسی اختلاف میں ملک کی روایات کو پامال کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔
اب جبکہ دہلی اسمبلی انتخابات کی سرگرمیاں عروج پر پہنچ رہی ہیں، بی جے پی اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے تیار دکھائی دیتی ہے اور کسی بھی چیز کو خاطر میں لانا نہیں چاہتی۔ بی جے پی کو اپنی اس طرح کی منفی روش تبدیل کرنی چاہئے اور ملک کی روایات اور اقدار کو پامال کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ دہلی کے عوام کو بھی اس بات کو ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ خواتین کے تعلق سے منفی سوچ رکھنے والے قائدین کو اپنے ووٹ کے ذریعہ سبق سکھایا جائے۔ خواتین کے احترام کو بہرصورت برقرار رکھا جانا چاہئے اور اس پر کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہئے۔