روس ۔ یوکرین جنگ دنیا کا کیا ہوگا؟

   

محمد ریحان
روس ۔ یوکرین جنگ آج 369 ویں دن میں داخل ہوگئی ہے۔ ایک سال سے زائد عرصہ سے جاری اس جنگ نے ایک طرح سے پہلی اور دوسری جنگ عظیم جیسے حالات پیدا کردیئے ہیں جب دنیا کی بڑی طاقتیں دو حصوں میں بٹ چکی تھیں۔ اِس جنگ نے بھی دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ایک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا گروپ ہے اور دوسری جانب روس، چین اور اُن کے حلیف ملکوں کا گروپ ہے۔ روس۔ یوکرین جنگ کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ فریقین ایک دوسرے کے خلاف جوہری ہتھیاروں (Nuclear Weapons) کے استعمال کی دھمکیاں تک دے رہے ہیں۔ اگرچہ یوکرین کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہے لیکن اس کے یہودی صدر ولودومیر زیلینسکی (Volodymyr Zelenskyy) اور اُن کی حکومت کو اِسرائیل نے نیوکلیئر ہتھیار فراہم کرنے کا نہ صرف تیقن دیا بلکہ ببانگ دہل اعلان بھی کیا ہے۔ ویسے بھی خود اسرائیل مظلوم فلسطینیوں کے خلاف بے شمار جنگی جرائم کا مجرم ہے اور اس کے جنگی جرائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہے۔ اسرائیل کا یوکرین کو جوہری ہتھیار سربراہ کرنے کے اعلان کے بعد روس ۔ یوکرین جنگ کے دنیا کیلئے انتہائی تباہ کن ثابت ہونے کے اشارے مل رہے ہیں۔ روس نے امریکہ، برطانیہ اور ان کے حلیف ملکوں کو پہلے ہی یہ دھمکی دی ہے کہ اگر امریکہ اور اس کے حلیف ملک یوکرین تنازعہ میں مداخلت کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور اسے ہتھیار فراہم کرتے رہیں گے تو پھر وہ (روس) بھی نیوکلیئر ہتھیار استعمال کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ روس۔ یوکرین جنگ کے سنگین رُخ اختیار کرنے کا اندازہ صدر امریکہ جوبائیڈن کے خفیہ اور اچانک دورۂ یوکرین سے لگایا جاسکتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ امریکی صدر پہلے پولینڈ پہنچتے ہیں اور پھر وہاں سے یوکرین کے دارالحکومت ’کیف‘ پہنچ جاتے ہیں اور ان کے اس خفیہ دورہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں چند مشیروں، ڈاکٹرس کی ایک ٹیم اور صرف دو صحافیوں کو شامل رکھا گیا اور ان صحافیوں سے نہ صرف ان کے موبائل فون لے لئے گئے بلکہ ان سے رازداری کا حلف بھی لیا گیا۔ وہ تحریری حلف تھا یا پھر زبانی، اس بارے میں معلوم نہ ہوسکا۔ ان صحافیوں کو کسی بھی قسم کی رپورٹ اپنے متعلقہ اداروں کو اس وقت تک روانہ کرنے کی اجازت نہیں تھی جب تک صدر کا قافلہ کیف نہ پہنچ جائے۔ اگرچہ وائٹ ہاؤز میں روزانہ کی پریس بریفنگ میں صحافیوں کے بار بار سوال پر یہی جواب دیا جاتا رہا کہ صدر بائیڈن کا یوکرین جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن یہ کہا جارہا ہے کہ اس دورہ کی منصوبہ بندی کئی ماہ قبل ہی کرلی گئی تھی اور اس کی اطلاع صرف جوبائیڈن کے قریبی مشیروں کو ہی تھی جبکہ دوسرے اعلیٰ عہدیدار بھی اس سے ناواقف تھے۔ میڈیا رپورٹس میں امریکی مشیر قومی سلامتی جیک سلیون کے حوالے سے بتایا گیا کہ جوبائیڈن کی یوکرین روانگی سے چند گھنٹے قبل ہی روس کو ان کے دورہ کے بارے میں اطلاع دی گئی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ صدر امریکہ نے یوکرین کے دارالحکومت ’’کیف‘‘ کیلئے طیارہ استعمال نہیں کیا بلکہ 10 گھنٹے تک ٹرین میں سفر کیا۔ دراصل وہ کیف کا دورہ کرتے ہوئے روس کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ امریکہ اور اس کے تمام اتحادی ، یوکرین کے ساتھ کھڑے ہیں اور اگر روس نے اپنی روش نہیں بدلی تو پھر اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا ہوگا ۔جوبائیڈن نے یوکرین کے صدارتی محل میں یہودی صدر ولادیمیر زیلینسکی سے ملاقات کی اور اپنی تائید کا یقین دلایا۔ بائیڈن نے کہا کہ ایک سال قبل جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو روسی صدر پیوٹن کا خیال تھا کہ یوکرین بہت کمزور ہے اور مغربی ممالک تقسیم کا شکار ہیں ،اس لیے یوکرین کو ختم کیا جاسکتا ہے لیکن اُن کا خیال غلط تھا۔ جوبائیڈن نے یوکرین کو مزید 500 ملین ڈالرس کا نیا فوجی امدادی پیاکیج دینے کا اعلان بھی کیا۔اس موقع پر انہوں نے کہا کہ یوکرین کو دی جانے والی نئی فوجی امداد (ملٹری ایڈ) میں لائٹ ملٹی پل راکٹ لانچرس بھی شامل ہیں۔جبکہ صدر یوکرین ولادومیر زیلینسکی نے کہا کہ صدر امریکہ سے طویل فاصلے تک وار کرنے والے ہتھیاروں پر بات چیت ہوئی ہے۔
اُدھر روس کے صدر ولادیمیر پوٹن ، امریکی صدر کے دورۂ یوکرین کے بعد روس کی امریکہ نیوکلیئر معاہدے میں شراکت داری معطل کرنے کا اعلان کردیا۔ صدر پوٹن نے کہا کہ نیٹو (NATO) ممالک روس ۔ یوکرین تنازعہ کو ’’عالمی جنگ‘‘ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ پوٹن نے دونوں ایوانوں سے سالانہ خطاب میں کہا کہ یوکرین جنگ جاری رہے گی۔ روس کے عوام ، یوکرین میں ملٹری ایکشن کی تائید کرتے ہیں۔دوسری جانب چین نے امریکہ سے اپیل کیا ہے کہ روس ۔ یوکرین جنگ کی آگ کو بھڑکانے کی کوشش نہ کرے۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بین نے پریس کانفرنس میں مزید کہا کہ روس۔ یوکرین جنگ کے میدان کوسب سے زیادہ ہتھیارامریکہ فراہم کررہا ہے۔ کل ہی امریکہ نے 500 ملین ڈالرس فوجی امداد (ملٹری ایڈ) کا اعلان کیا ہے اوراب امریکہ ، چین کے بارے میں افواہیں پھیلا رہا ہے کہ چین ، روس کو ہتھیار سپلائی کررہا ہے۔ترجمان نے یہ بھی کہا کہ درحقیقت امریکہ اس جنگ سے بھرپور فائدہ اُٹھارہا ہے۔ امریکہ کی بدنام زمانہ ہتھیاروں کی انڈسٹری اس سے پھل پھول رہی ہے۔ اس سے قبل امریکہ کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ ہمارے پاس اطلاعات ہیں کہ چین کی جانب سے روس کو جنگی مدد فراہم کی جا رہی ہے۔دوسری جانب چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے یوکرین جنگ پر اپنے رد عمل میں مذاکرات کے ذریعہ جنگ کے خاتمے پر زور دیا اور نیٹو ممالک کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کا مشورہ دیا ۔انہوں نے نام لئے بغیر کہا کہ کچھ طاقتیں مذاکرات کو کامیاب ہوتا یا جنگ کا جلد خاتمہ نہیں چاہتیں۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ روس اُسی طرح پھر بکھر جائے گا جس طرح سوویت یونین (U.S.S.R)کو افغانستان میں پھنساکر اس کا شیرازہ بکھیر دیا گیا تھا اور وہ بالآخر ’’روس‘‘ بن کر رہ گیا ۔ یہ اور بات ہے کہ امریکہ نے جن مجاہدین سے سوویت یونین کے زوال کیلئے مدد لی تھی، بعد میں انہیں ہی ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے کر اپنے سے نہ صرف دُور کیا بلکہ ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کی فرضی اصطلاح گھڑ کر دنیا کے ان مسلم ملکوں اور ان کی حکومتوں کو زوال سے دوچار کردیا اور حکمرانوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کیلئے ماحول تیار کیا جنہوں نے امریکی اجارہ داری کو قبول کرنے سے بڑی حقارت کے ساتھ انکار کردیا تھا۔ ہمارے سامنے افغانستان ، پاکستان، عراق، شام، سوڈان، یمن، لبنان کی مثالیں ہیں جہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر کم از کم ایک کروڑ مسلمانوں کو بے رحمی سے مار دیا گیا۔ عراق کے سابق صدر صدام حسین، لیبیا کے سابق حکمراں کرنل معمر قذافی، یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح کو نشانہ عبرت بنا دیا گیا اور پھر ’’بہار عرب‘‘ (Arab Spring) برپا کرتے ہوئے یہ سمجھا گیا کہ اپنے عزائم کی تکمیل کرلی جائے گی لیکن چال اُلٹی پڑگئی چنانچہ مصر میں انتخابات کے بعد اقتدار حسنی مبارک کے ہاتھوں سے نکل کر اِخوان المسلمین کے ڈاکٹر محمد مرسی کے ہاتھوں میں آگیا تو سامراجی طاقتوں کے پیروں تلے زمین نکل گئی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ محمد مرسی کی حکومت کو بے دخل کرکے اُنہیں نہ صرف جیل میں ڈال گیا بلکہ وہاں سازش کرکے اُنہیں مار دیا گیا۔ اُدھر تیونس کے سابق صدر زین العابدین بن علی، حسنی مبارک، سوڈان کے سابق صدر عمرالبشیر، ملائیشیا کے سابق وزیراعظم مہاتر محمد، پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی اقتدار سے بیدخلی بھی دجالی طاقتوں کی کارستانیوں باالفاظ دیگر گھناؤنے جرائم کی بدترین مثالیں ہیں۔
بہرکیف موجودہ حالات دنیا کی سلامتی کیلئے شدید خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ پہلے ہی اس جنگ کے نتیجہ میں عالمی سطح پر معاشی انحطاط کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے، خاص طور پر برطانیہ میں مہنگائی اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے۔ روس نے بطور خاص اس بات کی دھمکی دی ہے کہ اگر امریکہ اور اس کے اتحادی اپنی کرتوتیں نہیں چھوڑیں گے تو پھر وہ سب سے پہلے برطانیہ کو اپنے حملوں کا نشانہ بنائے گا تو دوسری جانب جرمنی کے شہر میونخ میں ہوئی بین الاقوامی سلامتی کانفرنس کی سائیڈ لائن پر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور اُن کے چینی ہم منصب وانگ ژی کے درمیان ایک گھنٹہ طویل ملاقات ہوئی۔ سینئر امریکی عہدیدار نے بتایا کہ ملاقات میں بلنکن نے جارحانہ انداز میں چینی ہم منصب کو روس ۔ یوکرین جنگ میں روس کی فوجی امداد کرنے کی صورت میں سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دی ہے۔