رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے

,

   

پارلیمنٹ میں یکساں سیول کوڈ بل … مسلمان ، خبردار ، ہوشیار
بھگوا ایک بہانہ … شاہ رخ خاں اصل نشانہ

رشیدالدین
بی جے پی کا خفیہ ایجنڈہ جو درحقیقت ہندوتوا ایجنڈہ ہے، اس کو غیر اہم اور محض دھمکی سمجھنا بڑی بھول ہوگی۔ بی جے پی جس تیزی سے ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل کر رہی ہے، اگر یہی رفتار رہی تو یکساں سیول کوڈ اور ہندو راشٹر کا ایجنڈہ بھی مکمل ہوجائے گا اور ہم بے بسی سے منہ تکتے رہ جائیں گے۔ ہمیں کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ گزشتہ 8 برسوں میں سیکولر اور جمہوری طاقتیں بی جے پی کے ناپاک عزائم کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔ بی جے پی نے اپنے قیام سے ہی ایجنڈہ میں رام مندر، کشمیر سے دفعہ 370 کی برخواستگی اور یکساں سیول کوڈ کو شامل کیا۔ عوام نے یہ کہہ کر اہمیت نہیں دی کہ محض ہندو ووٹ بینک مستحکم کرنے متنازعہ امور کو ایجنڈہ بنایا گیا ہے ۔ اٹل بہاری واجپائی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت مرکز میں برسر اقتدار رہی لیکن تینوں موضوعات کو چھیڑا نہیں گیا۔ عوام نے یہ نتیجہ اخذ کرلیا تھا کہ ہندوؤں کو پارٹی سے قریب کرنے کے علاوہ کوئی مقصد نہیں ہے۔ 2014 ء میں نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد بھی غفلت اور بے حسی برقرار رہی جس کا حکومت نے بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ جو کام اٹل بہاری واجپائی نہ کرسکے ، نریندر مودی نے اپنی دوسری میعاد کے تین برسوں میں کر دکھایا ۔ سپریم کورٹ سے بابری مسجد کی اراضی رام مندر کے لئے حاصل کرلی گئی اور مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کا آغاز ہوگیا۔ کشمیر سے خصوصی موقف کی دفعہ 370 ختم کرتے ہوئے وادی کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تبدیل کردیا گیا ۔ تیسرا مشن ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا باقی رہ گیا ہے ۔ یکساں سیول کوڈ کی راہ ہموار کرنے کیلئے شریعت اسلامی کو نشانہ بنایا گیا اور طلاق ثلاثہ پرامتناع عائد کرنے میں کامیابی ملی ۔ اب وراثت کے شرعی قانون ، ایک سے زائد شادی اورحلالہ جیسے شرعی امور پر عدالت کے ذریعہ فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش ہے تاکہ یکساں سیول کوڈ کی راہ آسان ہوجائے۔ ایجنڈہ کے خلاف مزاحمت کو روکنے ہجومی تشدد اور مسلمانوں پر غداری جیسے الزامات کے تحت حوصلوں کو پست کردیا گیا ۔ الغرض مسلمانوں میں خوف و دہشت پیدا کرتے ہوئے ہندو توا ایجنڈہ پر جس تیزی سے عمل کیا گیا ، واقعی حیران کرنے والا ہے۔ مسلمانوں کو چاروں طرف سے گھیرتے ہوئے محکوم اور دوسرے درجہ کے شہری کا احساس دلایا گیا ۔ رام مندر کیس میں کامیابی کے بعد کاشی اور متھرا کی مسجد اور عیدگاہ کو مندر قرار دینے عدالتوں کی مدد لی جارہی ہے۔ تاج محل اور قطب مینار جیسی تاریخی یادگاروں پر بھی بری نظریں ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب مسلمانوں کے جذبہ مزاحمت کو کچل دیا جائے تو رکاوٹ بھی باقی نہیں رہے گی۔ نفسیاتی طور پر کوئی قوم خود کو محکوم تصور کرنے لگے تو زوال سے کوئی روک نہیں سکتا۔ کچھ یہی حال مسلمانوں کا کیا گیا ۔ مسلم مذہبی اور سیاسی قیادتوں کو نہ صرف کمزور کردیا گیا بلکہ مسلمانوں کی نظر میں قیادتیں ناقابل اعتبار بن گئیں۔ جب قوم کا اپنی قیادتوں پر بھروسہ ختم ہوجائے تو زوال اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ گزشتہ 8 برسوں میں سیکولر اپوزیشن جماعتوں کو کمزور کرنے میں نریندر مودی کامیاب رہے۔ 2024 ء عام انتخابات سے قبل یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے ذریعہ مرکز میں اقتدار کی ہیٹ ٹرک کی جاسکتی ہے اور اگر تیسری بار اقتدار مل جائے تو ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرتے ہوئے ہندوتوا ایجنڈہ کی تکمیل کردی جائے گی۔ مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے اور بے سہارا بنانے کے لئے قیادتوں کو کمزور اور مشکوک بنادیا گیا۔ لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں تبدیلی مذہب پر پابندی قانون نافذ کیا گیا ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ بعض بی جے پی ریاستیں یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری میں مودی حکومت کی تیز رفتاری نے سنگھ پریوار کو بھی حیرت میں ڈال دیا ہے۔ امیت شاہ نے 2024 ء تک ملک میں یکساں سیوکل کوڈ کے نفاذ کا اعلان کیا ہے ۔ اسی سمت میں پہلے قدم کے طور پر راجیہ سبھا میں بی جے پی رکن کی جانب سے یکساں سیول کوڈ کے حق میں خانگی بل پیش کیا گیا۔ بل پر جب بھی مباحث ہوں گے حکومت تائید کرتے ہوئے اسے سرکاری بل میں تبدیل کردے گی۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ خانگی بل کے ذریعہ مسلمانوں کا امتحان لیا جارہا ہے کہ آیا وہ شریعت کے تحفظ کیلئے اٹھ کھڑے ہوں گے یا پھر بے حسی برقرار رہے گی۔ بابری مسجد سے محرومی ، کشمیر سے 370 کی برخواستگی اور طلاق ثلاثہ پر امتناع کے وقت اگر مزاحمت کی جاتی تو بی جے پی حکومت کی ہمت نہیں ہوتی کہ ہندوتوا ایجنڈہ پر بے خوف ہوکر عمل کرے۔ مودی حکومت نے ہندوتوا ایجنڈہ کے بارے میں جو کہا کہ اسے کر کے دھکایا، لہذا یکساں سیول کوڈ کی راہ میں کسی رکاوٹ کے امکانات دکھائی نہیں دیتے۔ ملک کو ہندوتوا کی تجربہ گاہ میں تبدیل کردیا گیا۔ کشمیر کے خصوصی موقف کی برخواستگی کے 3 سال مکمل ہوگئے لیکن سپریم کورٹ کے پاس کشمیریوں کی آواز سننے کیلئے وقت نہیں ہے۔ عدالت نے آج تک سماعت کی تاریخ مقرر نہیں کی ہے ۔ اسی طرح طلاق ثلاثہ پر امتناع کو بھی 3 سال ہوگئے لیکن مسلمانوں نے ایمانی حرارت کا کوئی مظاہرہ نہیں کیا ۔ مسلمانوں کو کسانوں اور ٹاملناڈو کے عوام سے سبق سیکھنا چاہئے جنہوں نے مرکزی حکومت کو اپنے فیصلہ واپس لینے پر مجبور کردیا تھا۔ مسلمانوں کی بے حسی نے بی جے پی اور سنگھ پریوار کے حوصلوں کو بلند کردیا ہے۔ راجیہ سبھا میں یکساں سیول کوڈ کے حق میں خانگی بل کی اپوزیشن نے مخالفت ضرور کی لیکن دونوں ایوانوں میں اپوزیشن عددی طاقت سے محروم ہے لہذا بی جے پی کے منصوبوں کو روکنا مشکل ہے۔ خانگی بل کے ذریعہ بی جے پی کی نیت آشکار ہوچکی ہے۔ یکساں سیول کوڈ شریعت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور اس کے نفاذ کے بعد ملک میں مسلمانوں کے مسائل کے فیصلے شریعت کے بجائے ملک کے قانون کے تحت ہوں گے۔ اس قدر بڑے خطرہ کو روکنے کیلئے مسلمانوں میں کوئی حکمت عملی دکھائی نہیں دیتی۔ پارلیمنٹ اور اس کے باہر تمام مفادات کے اسیر ہیں۔ مسلم ، دینی ، سیاسی اور سماجی شخصیتیں سابق میں کبھی اس قدر خوفزدہ نہیں تھیں جتنی کے آج ہیں۔ مسلمانوں کے چمپین کہلانے والی سیکولر جماعتیں بھی مصلحتوں کا شکار ہیں کیونکہ وہ ہندو ووٹ بینک سے محروم ہونا نہیں چاہتے۔
ہندوتوا اور جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کو مسلمانوں سے اس قدر نفرت ہے کہ ہندوستانی فلم انڈسٹری پر راج کرنے والے تین پٹھان برداشت نہیں ہیں۔ شاہ رخ خاں ، سلمان خاں اور عامر خاں کے خلاف وقتاً فوقتاً سازشوں کے باوجود شائقین کے دلوں پر ان کی حکمرانی کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ حال ہی میں عامر خاں کی نئی فلم کو ناکام کرنے کی سازش رچی گئی جو کسی قدر کامیاب رہی۔ اب جبکہ شاہ رخ خاں کی فلم ’’پٹھان‘‘ ریلیز ہونے والی ہے، فرقہ پرستوں نے اس کے بائیکاٹ کی مہم شروع کی ہے۔ مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے فلم میں ایک گانے پر دپیکا پڈوکون کے ڈریس پر اعتراض جتایا اور اس گانے کو حذف کرنے تک مدھیہ پردیش میں نمائش کی اجازت نہ دینے کی دھمکی دی ہے۔ ہندو مہا سبھا بھی پٹھان کے خلاف میدان میں آچکی ہے۔ نروتم مشرا کو اعتراض اس بات پر ہے کہ دپیکا پڈوکون نے جو لباس پہنا وہ بھگوا یعنی زعفرانی ہے۔ انہوں نے دپیکا پڈوکون کو ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا حصہ قرار دیا کیونکہ جے این یو میں طالبات پر حملہ کے بعد دپیکا پڈوکون متاثرین کے ساتھ دکھائی دی تھی ۔ بھگوا رنگ پر سنگھ پریوار کی دعویداری اور پیٹنٹ رائیٹ تو نہیں ہے کہ وہ رنگ پر اعتراض کر رہے ہیں۔ سوشیل میڈیا پر کنگنا راناوت اور اکشئے کمار کی فلموں کی تصاویر وائرل کی گئیں جس میں ہیروئینس نے زعفرانی لباس کا استعمال کیا۔ نروتم مشرا کو کنگنا راناوت پر تنقید کی ہمت اس لئے نہیں کہ وہ بی جے پی کی پسندیدہ ایکٹریس ہیں۔ دراصل شاہ رخ خاں کو نشانہ بنانا اصل مقصد ہے اور بھگوا رنگ تو محض ایک بہانہ ہے۔ گزشتہ دنوں سعودی عرب کے دورہ کے موقع پر شاہ رخ خاں نے عمرہ کا فریضہ ادا کیا تھا جس کے ویڈیوز سوشیل میڈیا میں وائرل ہوئے۔ فرقہ پرست طاقتوں کو عمرہ کی ادائیگی کھل رہی ہے اور انہوں نے دپیکا پڈوکون کے لباس کو بہانہ بناکر فلم کو نشانہ بنایا ہے تاکہ عامر خاں کی طرح ان کی فلم بھی ناکام ہوجائے۔ فلموں میں بھگوا رنگ کے استعمال پر اعتراض کرنے والے نام نہاد سادھوؤں کی غیر اخلاقی حرکتوں پر خاموش کیوں ہیں۔ بابا رام دیو نے حال ہی میں خواتین کے بارے میں انتہائی قابل اعتراض تبصرہ کیا تھا لیکن بی جے پی اور نروتم مشرا نے مذمت تک نہیں کی۔ جارحانہ فرقہ پرستی سے نمٹنے کیلئے علماء اور قائدین سے شکوہ کرنے کے بجائے قوم کو بیدار ہونا ہوگا۔ ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی لڑائی خود لڑنی ہوگی جس کے لئے بیداری اور ایمانی حرارت کی ضرورت ہے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے ؎
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے