رہے تجھ سے جو غافل ہم اسے غافل سمجھتے ہیں

   

محمد مصطفی علی سروری
ڈاکٹر مریم عفیفہ عتیق الرحمن، ڈاکٹر نوری پروین عرف ڈاکٹر نوری پری اور محمدی بیگم ۔ قارئین کرام اگرچہ ان تینوں لڑکیوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ کوئی رشتہ داری ہے۔ لیکن گذشتہ دو ہفتوں کے دوران ان تینوں لڑکیوں کے نام میڈیا خاص کر اردو اخبارات کی زینت بنے اور ان سے جڑی ہوئی خبریں بھی شائع ہوئی۔ ڈاکٹر مریم عفیفہ کے حوالے سے تو یہ خبر تھی اس ہونہار ڈاکٹر نے ایم بی بی ایس کی تکمیل کے بعد عثمانیہ میڈیکل کالج میں پوسٹ گریجویشن کیا اور اب سوپر اسپیشالٹی کے لیے نیرو سرجری میں داخلہ لیا ہے۔ ڈاکٹر نوری پروین کا تعلق کڑپہ سے ہے۔ آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والی اس لڑکی کا انٹرویو اردو میڈیا کے علاوہ تلگو میڈیا میں بھی خوب نشر ہوا۔ اس ڈاکٹر لڑکی نے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد اپنی پریکٹس شروع کی اور خاص بات یہ رہی کہ صرف دس روپے کی معمولی فیس کے ساتھ ڈاکٹر نوری پروین نے غریبوں کی مدد کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ تیسری لڑکی میرٹ کی بنیادوں پر گورنمنٹ میڈیکل کالج ، محبوب نگر میں ایم بی بی ایس میں داخلہ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
قارئین آج کے اس کالم کے ذریعہ سے جس موضوع اور جس مسئلے کی نشاندہی مقصود ہے وہ آپ کو کالم کے آخری حصے میں پڑھنے کو ملے گا۔ آیئے پہلے ذرا اس مسلم لڑکی کے متعلق جان لیتے ہیں جس کا نام ڈاکٹر مریم عفیفہ عتیق الرحمن ہے جس کے متعلق جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کیسے اس لڑکی کی تعلیمی ترقی دوسروں کے لیے تحریک اور ترغیب کا باعث بن سکتی ہے۔ڈاکٹر مریم کا تعلق اگرچہ مہاراشٹرا کے ضلع مالیگائوں سے بتلایاگیا ہے لیکن ساتویں جماعت میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد یہ لڑکی شہر حیدرآباد آجاتی ہے۔ اس لڑکی کے حوالے سے شائع خبر میں پرانے شہر دبیرپورہ کے اردو میڈیم اسکول درشہوار گرلز ہائی اسکول کا ذکر تھا ۔ اس پس منظر میں پروفیسر مسعود علی خان صاحب کے ذریعہ سے جو کہ اس اسکول کے سکریٹری ہیںڈاکٹر مریم کا فون نمبر ملا اور پھر فون پر ہی ڈاکٹر مریم سے ان کے تعلیمی سفر کے متعلق بات ہوئی جس کا خلاصہ نوجوان نسل کے لیے کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر مریم نے مالیگائوں کے اردو میڈیم اسکول سے ساتویں کا امتحان پاس کیا جہاں پر انہیں مہاراشٹرا کی علاقائی سرکاری زبان مرہٹی بھی پڑھنی تھی۔ اس کامیابی کے بعد مریم اپنی والدہ کے ہمراہ شہر حیدرآباد کا رخ کرتی ہیں اور قریبی احباب کے مشورہ سے مریم کی والدہ اپنی لڑکی کو بجائے آٹھویں اور نویں جماعت پڑھانے کے راست دسویں جماعت کے امتحان میں شریک کروانا چاہتی ہیں اور اس منصوبے کے تحت پرنسس درشہوار گرلز ہائی اسکول اردو میڈیم سے مریم دسویں کی تعلیم حاصل کرنے لگتی ہے۔
ساتویں کے بعد راست دسویں کا امتحان لکھنا اور پھر ذریعہ تعلیم بھی بدلنا ایک چیالنج ہی تو ہے۔ قارئین یہاں پر میں نے مریم سے سوال کیا کہ اردو میڈیم سے پڑھنے کے بعد انگلش میڈیم میں داخلہ لینا کیسا رہا؟ اس سوال پر مریم نے بتلایا کہ ملک پیٹ کے کالج میں شروع کے دو ہفتے بڑے پریشان کن تھے۔ اس عرصے کے دوران میں نے اس بات کو نوٹ کرلیا کہ میڈیم کے بدلنے سے مجھے کتنی زیادہ محنت کرنی ہے اور کالج کے غوث سر کی رہنمائی کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر مریم نے بتلایا کہ غوث سر کی سختی، ڈسپلن کی شکل میں بڑی کام آئی۔ صبح سات بجے سے رات 10 بجے تک کی اسٹار بیاچ کی کلاسز نے اپنا رنگ دکھایا اور انٹرمیڈیٹ فرسٹ ایئر میں نمایاں کامیابی ملی۔ سبھی پرچوں میں 100 فیصدی مارکس تھے ۔ صرف انگلش میں 80 فیصد آئے تھے۔ اگلے برس انٹر سکنڈ ایئر میں یہ کمی بھی جاتی رہی اور مریم نے فرسٹ کلاس سے انٹرمیڈیٹ میں کامیابی درج کی۔
قارئین کیا مریم نے پہلے ہی سے طئے کر رکھا تھا کہ اس کو ایم بی بی ایس کے بعد ایم ایس کرنا ہے ؟ اس سوال پر مریم نے بتلایا کہ اس کو تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ انٹرمیڈیٹ کے بعد ایمسٹ ہوتا ہے۔ بس ماں کے مشورے اور اسکول، کالج کے ٹیچرس کو سنتے ہوئے وہ آگے بڑھتی گئی۔ اس ہونہار لڑکی کے مطابق اس نے اپنی طرف سے بس ایک ہی کوشش کی کہ وہ جو کوئی بھی کام کرے گی اس میں اپنی طرف سے 100 فیصدی کوشش کرے گی۔
ایم بی بی ایس کی تکمیل کے بعد ڈاکٹر مریم نے میڈیسن کا پوسٹ گریجویشن اسپیشالٹی کورس ایم ایس پاس کیا اور NEET کے سوپر اسپیشالٹی انٹرنس میں 137 واں کل ہند رینک حاصل کرتے ہوئے پھر سے عثمانیہ میڈیکل کالج میں نیرو سرجری کے یم سی ایچ کورس میں سیٹ حاصل کرلی۔ قارئین میڈیسن کی فیلڈ میں یہ وہ اعلیٰ ترین سند ہے جس کی اہمیت صرف وہی لوگ جانتے ہیں جو اس پیشہ کے ماہر ہیں اور یہ اعزاز ایک ایسی مسلم لڑکی کو حاصل ہوا ہے جس کی اسکولنگ اردو میڈیم سے ہوئی ہے اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ لڑکی کی والدہ خود ڈاکٹر نہیں ہے بلکہ ایک دینی درسگاہ میں معلمہ ہے۔ پس ثابت ہوا کہ دینی تعلیم جو کہ مریم نے اپنی والدہ سے حاصل کی عصری تعلیم کی راہ میں کسی طرح رکاوٹ نہیں ثابت ہوئی۔

قارئین اب میں اپنے کالم کے اصل موضوع کی طرف آپ حضرات کی توجہ مبذول کروانا چاہوں گا۔ قبل اس کے کہ میں اپنے نقطۂ نظر کو پیش کروں ذرا ان خبروں کو بھی ملاحظہ کرلیجئے گا کہ جنوری کے اوائل کی خبر ہے کہ کوکٹ پلی کے علاقے میں ایک میوہ فروش اپنی بنڈی پر میوے فروخت کر رہا تھا اس مسلم میوہ فروش کی بنڈی پر پانچ نوجوان آکر کچھ میوہ لے کر کھالیتے ہیں اور میوہ فروش جب ان سے دس روپئے کی رقم طلب کرتا ہے تو وہ لوگ جھگڑا کرنے لگتے ہیں اور اس جھگڑے میں پانچ نوجوان مل کر میوہ فروش کو اس قدر مارپیٹ کا نشانہ بناتے ہیں کہ اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ قارئین اس واقعہ میں دو پہلو غور کرنے کے قابل ہیں۔ ایک تو جھگڑا 10 روپئے کی رقم کو لے کر ہوا تھا۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ پولیس نے جن پانچ نوجوانوں کو قتل کے الزام میں گرفتار کیا ان میں سے دو تو نابالغ بچے ہیں جن کی شناخت تک قانونی طور پر ظاہر نہیں کی جاسکتی ہے۔
آیئے اب ذرا غور کیجیے گا تین لڑکیوں کی کامیابی کے متعلق آپ لوگوں نے پڑھ لیا وار جرائم میں ملوث نابالغ لڑکوں کے متعلق بھی میں نے آپ حضرات کو دو خبروں کا حوالہ دے دیا۔ بظاہر ان دونوں میں کوئی تعلق نظر نہیں آتا لیکن اصلاً یہ ہمارے مسلم سماج کے مسئلے کی عکاسی کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں لڑکے بے جا لاڈ و پیار میں بگڑ کر تعلیم سے دور اور غیر سماجی سرگرمیوں سے قریب ہوتے جارہے ہیں اور لڑکیاںایس ایس سی سے لے کر پی ایچ ڈی تک مسلسل ہر شعبہ میں اور ہر محاذ پر کامیابی حاصل کرتی جارہی ہیں۔

بطور ٹیچر، بطور والد اور تجزیہ نگار میں سونچ کر ہی پریشان ہو رہا ہوں کہ مسلم سماج میں جس طرح لڑکیاں اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑھ رہی ہیں ایسے میں اس وقت کیا ہوگا جب ان لڑکیوں کی شادی کے لیے رشتوں کی تلاش شروع ہوگی۔
کیونکہ لڑکے تو دسویں کے بعد سے ہی ترک تعلیم کر رہے ہیں۔ ذرا ان لڑکوں کے ہیر اسٹائل کو دیکھیں۔ ان کے کھانے، پینے کی عادات و اطوار کو دیکھیں۔ ذراغور کریں یہ لڑکے راتوں میں کہاں اور کیسے اوقات گذار رہے ہیں۔ سگریٹ نوشی سے لے کر شراب نوشی اور طرح طرح کے نشے کی عادات کے متعلق پولیس والے جب بتلاتے ہیں تو ذہن میں سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ کیا یہ بھی آر ایس ایس کی سازش ہے کہ مسلم مائیں لاڈ میں اندھی ہوکر اپنے ہی بچوں کو صرف اور صرف اچھا کھانا کھلارہی ہیں۔ اچھی گاڑی دلانا اور جیب خرچ دینا، بچوں کو تعلیم سے دور، دین سے دور تباہی کے گہرے غاروں میں دھکیل رہا ہے۔ ذرا سونچئے گا ہمارے لڑکا تعلیم و تربیت سے بے بہرہ ہوکر سڑکوں پر شیروں کی طرح گھوم رہے ہیں تو ہمارے لیے شریف، دیندار، تعلیم یافتہ برسر روزگار داماد کیا آسمان سے اتارے جائیں گے۔ خدارا اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت پر توجہ دیجئے۔ انہیں جنگل کا شیر اور جم کا پہلوان نہیں، نبیؐ کا سچا امتی اور عملی عاشق رسول بنایئے۔ ان شاء اللہ آج سے شروع ہونے والی ہماری توجہ یقینا کل کی تبدیلی کی اُمید ہے۔
یاد رکھئے نکاح کرنا سنت ہے اور اولاد کی تربیت فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین
نہ دنیا باعث غفلت نہ عقبیٰ وجہ ہوشیاری
رہے جو تجھ سے غافل ہم سے غافل سمجھتے ہیں
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com