ریاستوں کے اختیارات اور مرکز

   

مروت کی فضاؤں میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
جبیں پر بل تو آتے ہیں مگر خاموش رہتے ہیں
ملک کی مختلف ریاستوں میں جہاں غیر بی جے پی حکومتیں قائم ہیں ان کی شکایت ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے ان کے کام کاج میں رخنہ اندازی کی جا رہی ہے ۔ ان کے کام کاج کو سہل اور آسان بناتے ہوئے آگے بڑھانے کی بجائے اس میں رکاوٹیںپیدا کی جا رہی ہیں۔ سب سے پہلے یہ شکایت دہلی میں شروع ہوئی ۔ مرکزی زیر انتظام علاقہ ہونے کی وجہ سے دہلی کا معاملہ قدرے مختلف ہے ۔ تاہم وہاں بھی حکومت عوام کے ووٹ سے جمہوری طریقہ سے منتخب کردہ حکومت ہی ہے تاہم وہاں مرکزی حکومت کے اختیارات زیادہ ہیں۔ تاہم جو اختیارات دہلی حکومت کو حاصل ہیں ان کے استعمال کی راہ میں بھی رکاوٹیںپیدا کرنے کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ۔ مرکزی حکومت اور ریاستی حکام کے مابین اس معاملہ پر کئی مرتبہ ٹکراؤ کی کیفیت بھی پیدا ہوئی تھی ۔ دہلی کے بعد یکے بعد دیگر کئی ریاستوں میں مرکزی حکومت پر ریاستی گورنرس کے ذریعہ ان کے کام کاج میں رکاوٹیں پیدا کرنے اور بلوں کی منظوری میں عمدا تاخیر کئے جانے کے الزامات عائد کئے ہیں۔ ان میں ٹاملناڈو اور تلنگانہ بھی شامل ہے ۔ ان میں کیرالا اور مغربی بنگال بھی شامل ہے ۔ ان میں مہاراشٹرا بھی شامل تھی جب تک وہاں اپوزیشن کی حکومت تھی ۔ غیر بی جے پی جماعتوں کا جو الزام ہے اس کے مطابق مرکزی حکومت سیاسی اختلافات کو بنیاد بناتے ہوئے ان کے کام کاج میں رکاوٹ پیدا کر رہی ہے اور ان کے اختیارات پر بھی قدغن لگانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ جمہوری طور پر عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والی ریاستی حکومتوں کو ملک کے دستور اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے عوامی خدمت کے کئی اختیارات حاصل ہیں۔ ریاستی اسمبلیوں میں منظور کردہ بلز کو منظوری کیلئے گورنر کے پاس بھیجا جاتا ہے جہاں سے منظوری حاصل ہوتی ہے ۔ اس روایت میں شائد ہی کبھی کوئی اختلاف رہا ہو لیکن جب سے مرکز میں بی جے پی حکومت قائم ہوئی ہے اس کے بعد سے ریاستوں میں گورنر پر بھی حکومتوں سے تعاون نہ کرنے اور ٹکراؤ کی کیفیت پیدا کرنے کے الزامات عائد ہونے لگے ہیں۔
دہلی میں عام آدمی پارٹی کی اروند کجریوال کی حکومت نے اس معاملہ کو سپریم کورٹ سے رجوع کردیا ۔ سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت کو ناکامی ہوئی ۔ ملک کی اعلی ترین عدالت نے یہ واضح کردیا کہ مقننہ اور عاملہ کے اختیارات دہلی حکومت کو حاصل ہیں اور لیفٹننٹ گورنر کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے ۔ اس رولنگ کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ دہلی میں کم از کم اب صورتحال تبدیل ہوگی اور عام آدمی پارٹی کی حکومت کو کھل کر کام کرنے کا موقع ملے گا ۔ تاہم بی جے پی نے اس پر روک لگانے کیلئے اپنے اقتدار کا بیجا استعمال کیا ہے اور وہاں ایک آرڈیننس جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ رولنگ کو زائل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس طرح سے مرکزی حکومت نے سیاسی اختلاف کی بناء پر ضدی اور ہٹ دھرمی والا رویہ اختیار کیا ہے اور یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ اپوزیشن جماعت کی حکومت کو کام کرنے کا موقع نہ مل سکے ۔ اس کیلئے مرکز کی جانب سے کئی طرح کے عذر اور بہانے پیش کئے جا رہے ہیں لیکن یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ بی جے پی حکومت اپوزیشن جماعتوں کی حکومتوں کو کام کرنے کا موقع دینا نہیں چاہتی اور وہ سیاسی اختلاف کو حکمرانی کی راہ میں رکاوٹ بنا کر رکھنا چاہتی ہے ۔ یہ صورتحال ملک کے جمہوری اور وفاقی ڈھانچہ کے مغائر ہے ۔ ملک کی آزادی کے سات دہوں تک چلنے والی روایت سے انحراف ہے اور مرکز کے آمرانہ اور ہٹ دھرمی والے رویہ کو ظاہر کرتا ہے جو ملک کے عوام اور یہاں کی روایات و دستوری و قانونی گنجائشوں کے مغائر ہے ۔
عام آدمی پارٹی نے مرکزی حکومت کے اس اقدام کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی تائید حاصل کرنے کی کوشش شروع کی ہے اور یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ کئی جماعتیں حکومت کے اس اقدام کے خلاف ہیں۔ اس کوشش کو راجیہ سبھا میں ناکام بنانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کو اس مسئلہ پر متحد ہو کر کوئی موقف اختیارکرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آج مرکزی زیر انتظام علاقہ ہونے کے بہانے سے دہلی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو یہ اندیشے بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ کل ملک کی کسی بھی ریاست کو اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ مرکزی حکومت کو بھی اپنے فیصلوںپر نظرثانی کرتے ہوئے لچکدار رویہ اختیار کرنا چاہئے ۔